بچپن سے لے کر انتالیس چالیس سال کی عمر تک خوشی قسمتی سے مجھے اپنے والد مرحوم پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب کا سایہ نصیب رہا۔
وہ اردو اور فارسی کے جید عالم اور ادیب تھے۔ میرے ذوق کی تربیت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کا کتب خانہ ملک بھر میں مشہور تھا۔ اس میں سب کتابیں بڑوں کے پڑھنے کی تھیں، لیکن اپنا شوق پورا کرنے کے لیے میں انہی کتابوں سے دل لگاتا تھا، چنانچہ میں نے دس گیارہ سال کی عمر تک ’ہماری شاعری‘، ’آب حیات‘، ’الفاروق‘ اور ’دربار اکبری‘ وغیرہ پڑھ ڈالی تھیں خواہ وہ میری سمجھ میں نہ آئی ہوں۔
والد صاحب بہت اچھے نثر نگار بھی تھے اور نثر لکھنے میں بڑی محنت کرتے تھے۔ اکثر اظہار مطلب کے لیے مناسب لفظ کی تلاش میں کئی کئی دن سرگرداں رہتے تھے۔ میں نثر لکھنا بھی اپنے والد مرحوم ہی سے سیکھا۔
ہمارے یہاں افسانوں کے مجموعے اور بچوں کی کتابیں نہیں کے برابر تھیں، لیکن ہمارے پڑوس میں ناول نگار الطاف فاطمہ کے یہاں ان کا اچھا ذخیرہ تھا اور وہاں مجھے بہت کتابیں پڑھنے کو ملیں۔
بیشتر بچوں کی طرح مجھے بھی کہانیاں بنا کر سنانے کا شوق تھا۔ ان میں سے کچھ بچوں کے رسالوں میں شائع بھی ہوئیں۔ پھر نوجوانی کے شروع میں بڑوں کے افسانے لکھنے کا شوق پیدا ہوتے ہوتے ادبی تحقیق میں مصروف ہو گیا اور سنہ 1970-71 تک تحقیقی مضامین لکھتا رہا۔ پھر شمس الرحمٰن فاروقی کے رسالے کے لیے یکے بعد دیگرے پانچ افسانے لکھے جن کا مجموعہ سیمیا کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد سے افسانے اور تحقیقی مضامین وغیرہ لکھ رہا ہوں۔
(ممتاز فکشن نگار نیّر مسعود کی ایک تقریر سے اقتباس)
Leave feedback about this