امیر جےیوآئی مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے اتنی تیزی کے ساتھ آئین میں ترامیم کا جو رجحان ہے، وہ آئین کی اہمیت کو مجروح کر رہا ہے، حالانکہ آئین ایک میثاقِ ملی ہے۔ چھبیسویں ترمیم میں کم از کم ایک ماہ اور ایک ہفتے تک مشاورت ہوتی رہی، بات چیت چلتی رہی اور مفاہمت کے ساتھ اسے اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ لیکن ستائیسویں ترمیم میں جبراً دو تہائی اکثریت بنائی گئی اور اسی طاقت کے زور پر اسے پاس کروایا گیا، جس کے نتیجے میں یہ آئین متنازع بن جائے گا، کیونکہ عوام اسے تسلیم نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا سپریم کورٹ نے آج ایک فیصلہ دیا ہے، جو زنا بالجبر کے کیس سے متعلق تھا۔ بیس سال کی سزا کو کم کر کے پانچ سال کر دیا گیا اور اسے زنا بالجبر کے بجائے زنا بالرضا قرار دیا گیا۔ یہ فرق مشرف دور میں متعارف کروایا گیا تھا، جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی ہے۔ آج مسئلہ یہ ہے کہ اگر زنا کا معاملہ ہو تو سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں، اور اگر جائز نکاح کا معاملہ ہو تو اس میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ یہ خود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تصور کی نفی ہے۔مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتیں نہ ہونے دینا بھی ایک جمہوری ملک میں افسوسناک ہے۔ میں تو یہ بھی سوال اٹھاتا ہوں کہ وہ گرفتار کیوں ہیں؟ نہ میں سیاستدانوں کی گرفتاری کے حق میں ہوں اور نہ ملاقاتوں پر پابندی کے۔ اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے، اور اصل فیصلے کون کر رہا ہے؟ ہم سب انہی فیصلوں کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔بلڈرز کو بھتے کی پرچیاں، سندھ حکومت نے وفاقی وزیر داخلہ کو آن بورڈ لینے کا فیصلہ کر لیا

Leave feedback about this