اسلام آباد: پاکستان کا ٹیکس شارٹ فال رواں مالی سال کے دس ماہ کے دوران400 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔کرنسی کی گراوٹ اور منی بجٹ کے باجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس دوران محض 5.62 ٹریلین روپے ہی جمع کرسکا ہے، اور400 ارب روپے کے خسارے کے ساتھ 6.02 ٹریلین روپے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر آئی ایم ایف کا پریشر بڑھے گا۔آئی ایم ایف سے کی گئی مفاہمت کے مطابق اگر ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں ہوتا، تو پھر حکومت کو اخراجات کم کرنا ہوں گے، یا پھر مزید ٹیکس عائد کرنا پڑیں گے۔ اگر صورتحال برقرار رہتی ہے تو ایف بی آر رواں مالی سال کا 7.640 کا مقرر کردہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ایف بی آر اپریل کا ماہانہ 586 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے میں پہلے ہی ناکام رہا ہے، اپریل کے مہینے میں ٹیکس وصولیوں میں 123 ارب روپے کا خسارہ سامنے آیا ہے، حکام پرامید ہیں کہ وہ ہفتے اور اتوار تک مزید 20 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرلیں گے۔رواں مالی سال کے آخری دو ماہ کے دوران ایف بی آر کو ٹیکس خسارہ ختم کرنے کیلیے مزید روزانہ 33 ارب روپے کی اوسط سے 2.02 ٹریلین روپے اکھٹے کرنا ہوں گے، تاہم، پہلے دس ماہ کے دوران موجودہ حکومت کی اوسط ٹیکس کلیکشن روزانہ بنیازدوں پر 19ارب روپے رہی ہے، اس دوران اتحادی حکومت نے 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی نافذ کیا تھا۔رواں مالی سال کے دوران حکومت نے مجموعی طور پر 800 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کیے ہیں، اور بجٹ پیش کرتے ہوئے ایف بی آر نے مہنگائی کا تخمینہ 11.5 لگایا تھا، جو اس وقت بڑھ کر 36 فیصد ہوچکی ہے۔ایف بی آر کی جانب سے جمع کیا جانے والا 5.62 ٹریلین روپے کا ریونیو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 762 ارب روپے زیادہ ہے جبکہ ایف بی آر نے مجموعی طور پر 750 ارب روپے کی کسٹم ڈیوٹیاں وصول کی ہیں، جو کہ ہدف سے 180 ارب روپے کم ہیں، اور گزشتہ سال کے مقابلے میں 42 ارب روپے کم ہے، جبکہ اپریل میں کسٹم وصولیاں ہدف سے 45 ارب روپے کم رہی ہیں۔ایف بی آر کو امپورٹس سے ٹیکس جمع کرنے پر انحصار کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے اپنے آپریشن میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔