لاہور :وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اسٹیبلشمنٹ سے ملا ہوا ہے۔لاہور میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پانچ اگست تک اپنی تک کو عروج پر لے جانا ہے، پانچ اگست کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان ہوگا، قوم میں شعور آگیا ہے۔
ہمارے لوگوں پر نو مئی کے بعد بدترین تشدد کیا گیا، ہمارے خلاف اب دوبارہ فسطائی مہم چلائی جارہی ہے، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے کیخلاف کیسز کو چلنے ہی نہیں دیا جارہا۔علی امین گنڈاپور نے کہا کہ احتجاج کا آئنی حق بھی چھینا جارہا ہے، لوگوں کو احتجاج کے لیے باہر نکال رہے ہیں، ریاستی ادارے اپنے آئینی کام کو چھوڑ کر غیر آئینی کاموں میں لگ گئے ہیں، دہشت گردی اور سرحدوں کو چھوڑ کر ہمارے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
ملک میں مافیا کا اسٹرکچر بن گیا ہے، ادارے کہتے ہیں کہ ہم سیاست نہیں کرتے لیکن وہی کام کرتے ہیں، میں فوجی کا بیٹا ہوں لیکن آج لوگ اداروں کیخلاف ہوچکے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان مسلسل مذاکرات کی بات کررہے ہیں، عوام غیر جمہوری رویوں کو مسترد کررہے ہیں، پاکستان کے لیے کھڑا ہونے کے لیے کسی سے ملا ہوں تو ہاں ملا ہوں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا کہ اسی سے بات ہوگی جس کے بات مینڈیٹ ہے، فیصلہ سازوں سے بات ہوگی ان کے ساتھ سیاسی لوگوں نے بیٹھنا تو منظور ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جعلی الیکشن اور حکومت گرانے میں کردار ادا کیا، مولانا فضل الرحمان نے خود کہا کہ جنرل باجوہ کے کہنے پر انہوں نے ہمارے حکومت گرائی، بانی پی ٹی آئی صرف اختیار والے کیساتھ بات کا کہہ چکے ہیں۔
90 دن ہم نے اپنے آپ کو دئیے ہیں، نئے لائحہ عمل کے تحت اپنی تحریک کو 5 اگست تک عروج پر لے جائیں گے، 90 دن میں ہم طے کریں گے کہ ہم نے اس ملک میں سیاست کرنی ہے یا نہیں۔
مذاکرات میں ڈیڈ لاک کہیں نہیں ہوا، ٹائم ضائع کرکے اپنے مفادات حاصل کرتے جارہے ہیں، ہم نے کبھی چھپ کر ملاقات نہیں کی، سرکاری اجلاسوں میں بھی اپنی پارٹی کا ایجنڈا لے کر چلتا ہوں۔ لاہور میں ہم جلسہ کرنے کی اجازت مانگیں گے تو توڑ پھوڑ نہ کرنے کی گارنٹی بھی دیں گے، ہم احتجاج کا اعلان بھی نہیں کرتے اور ہم پر کریک ڈان شروع ہوجاتا ہے۔
اللہ نہ کرے میں آصف زرداری جیسا بنوں، میرے اوپر غداری سمیت 56 ایف آئی آر درج ہیں، 90 دن کل سے شروع ہوگئے ہیں، 90 دن میں مذاکرات کریں اور مسائل ختم کریں۔مانتا ہوں پارٹی میں اختلافات ہیں لیکن جب جماعت بڑی ہوتی ہے تو اختلاف ہوتے ہیں، اسی لیے کل بھی کہا تھا آج بھی کہہ رہا ہو ہمیں آپس کے اختلافات بھلا کر ایک نظریے کے لیے اگے بڑھنا ہے۔
Leave feedback about this