والدین اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت ہیں جن کے بغیر گھر کی مثال ایک ویران کھنڈر سے کم نہیں۔ باپ گھر کی چھت کی مانند ہے تو ماں اس کی چار دیواری۔ ہمارے معاشرے میں کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جو بچپن ہی سے اس باپ کی پرسکون سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسی کمی جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔
یتیم کی زندگی محض دو لفظ نہیں، بلکہ ایک ایسی المناک داستان ہے جس کے ہر ورق پر تنہائی کے اندھیرے اور جدوجہد کے دھاگے بنتے ہیں۔ یہ وہ معصوم ہے جس نے زندگی کے پہلے ہی موڑ پر اپنا سہارا کھو دیا، جس کی آنکھوں سے باپ کا سایہ اوجھل ہو گیا، اور جس کے خوابوں کی کتاب کے صفحات خالی رہ گئے۔
موجودہ معاشرتی صورتحال میں جب کسی سے باپ کا سایہ اٹھتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے بحران میں کھڑا پاتا ہے جہاں ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ اگرچہ لڑکا جوان ہو کر ظاہری طور پر اس کمی کو بھول جاتا ہے، مگر شادی کے بعد وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں سے آنکھیں چرانے لگتا ہے۔
لڑکیوں کا معاملہ تو اور بھی نازک ہے۔ وہ جذباتی طور پر انتہائی حساس ہوتی ہیں۔ باپ کے بعد بڑا بھائی ہی ان کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں تو وہ اپنے فرائض نبھاتا نظر آتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ بھی پہلے جیسی گرمجوشی کھو دیتا ہے۔
شادی کے بعد تو صورت حال اور بھی سنگین ہو جاتی ہے۔ بڑا بھائی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو یکسر بھول جاتا ہے۔ رشتوں کی یہ بے حسی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان سے ملنے تک کو تیار نہیں ہوتا۔
اس پوری صورتِ حال میں سب سے زیادہ صدمہ گھر کی لاڈلی بیٹی کو اٹھانا پڑتا ہے جو بچپن ہی میں والد کے سای شفقت سے محروم ہو جاتی ہے۔ بڑے بھائی کی بے رخی اور لاپرواہی اسے ایک ایسے جذباتی خلا میں دھکیل دیتی ہے جس سے نکلنا اس کے لیے انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ خود کو ہمیشہ ادھورا محسوس کرتی ہے، کیونکہ اس کے جذبات کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ باپ کی کمی کوئی پورا نہیں کر سکتا۔ وہ خود بھوکا رہ کر بچوں کو پیٹ بھر کھلاتا ہے اور انہیں بہترین زندگی فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ بڑے بھائی کا رویہ اکثر اوقات اس درد کو اور بھی گہرا کر دیتا ہے۔
بعض اوقات ہم یہ ذمہ داری چند پیسے دے کر پوری سمجھ لیتے ہیں۔ چند مالی امداد کو احسان سمجھا جاتا ہے، حالانکہ باپ کی محبت کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ باپ تو اپنی اولاد پر مرتے دم تک قربان ہوتا ہے۔
یہ وہ نازک موڑ ہے جب ہمیں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے جذبات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ کیا مالی معاونت ہی سب کچھ ہے؟ کیا ہماری ذمہ داریاں محض چند روپے دینے تک محدود ہیں؟
اللہ کے لیے! ان معصوموں کو جذباتی سہارا دیں۔ ان کی خواہشات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں، محبت اور توجہ کی کمی کو دولت سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک پیار بھرا لمس، ایک خیر خواہانہ گفتگو ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کر سکتی ہے۔
تحریر: ناصر اقبال کریمی


Leave feedback about this