غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی جاری ہے تاہم وفاق کی سنجیدہ حکمتِ عملی کے مقابلے میں خیبرپختونخوا میں یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی واپسی کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے Illegal Foreigner Repatriation Plan (IFRP) شروع کیا گیا یہ جامع پلان قومی سلامتی، ریاستی وسائل کے تحفظ اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ناگزیر حکمتِ عملی ہے۔وفاقی حکومت نے اس منصوبے کے تحت واضح اور مرحلہ وار پلان جاری کیا، پلان کے مطابق ملک بھر میں افغان مہاجر کیمپوں کو مرحلہ وار ڈی نوٹیفائی کیا گیا، وفاقی حکومت کی جانب سے فیز 3 کے نفاذ کے بعد مجموعی طور پر 54 افغان مہاجر کیمپوں کو قانونی طور پر غیر فعال قرار دیا گیا۔غیر فعال قرار دیئے گئے کیمپوں میں 43 خیبرپختونخوا، 10 بلوچستان اور ایک پنجاب میں واقع تھا، 25 ستمبر، 13 اکتوبر اور 15 اکتوبر 2025ء کو تمام کیمپوں کی ڈی نوٹیفکیشن مکمل کی گئی۔پنجاب اور بلوچستان نے وفاقی کی پالیسی پر فوری عمل درآمد کیا جس میں پیش رفت بھی سامنے آئی، پنجاب نے میانوالی کے واحد افغان کیمپ کو مکمل طور پر خالی کرا لیا۔بلوچستان میں 88 ہزار سے زائد افغان شہریوں کا ریکارڈ سامنے آیا جن کی واپسی جاری ہے اور دسمبر تک مکمل ہو جائے گا۔خیبرپختونخوا کی صورتحال دیگر صوبوں کے مقابلے میں نہایت تشویش ناک ہے، خیبرپختونخوا میں 43 ڈی نوٹیفائیڈ افغان کیمپوں میں سے صرف دو کیمپوں کو مکمل کلیئر کیا گیا اور باقی کیمپ بدستور فعال ہیں۔صوبائی حکومت ان میں رہائش پذیر افغان باشندوں کو بجلی، پانی، صحت اور دیگر سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ ڈی نوٹیفکیشن کے باوجود ان کیمپوں کا فعال رہنا خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتی کمزوری اور پالیسی پر عدم عمل درآمد کی کھلی نشاندہی ہے۔یہ صورتحال صوبے کے محدود وسائل پر بوجھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ قانون کی کمزور گرفت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ مزید تشویش ناک پہلو صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور اس میں ملوث افغان باشندوں کے مستند شواہد ہیں۔وفاقی حکومت کی واضح ہدایات کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت آئی ایف آر پی پر بروقت اور موثر عمل درآمد میں ناکام ہے۔
Leave a Comment
