پاکستانی معاشرہ اپنی اسلامی، ثقافتی اور تاریخی اقدار کی وجہ سے ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو معاشرے کے ہر فرد کے لیے اخلاقیات، عدل و انصاف، بھائی چارے اور باہمی احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ تاہم قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستانی معاشرے میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں بتدریج اخلاقی گراوٹ اور سماجی بگاڑ نے ہماری اس شناخت کو دھندلا دیا ہے۔ آج کل ہر سو حرص و ہوس اور ابن الوقتی کا بازار گرم ہے، معاشرتی ناانصافی، لاقانونیت، رشوت خوری، بدعنوانی، اقربہ پروری، میرٹ کی پامالی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، دوسروں کے ساتھ بدسلوکی اور خودغرضی جیسے رویوں نے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس مضمون میں اسلامی تعلیمات اور قرآن و حدیث کی روشنی میں معاشرے کی اصلاح کے لیے ممکنہ عملی اقدامات کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو فرد اور معاشرے کی اخلاقی، سماجی اور روحانی طور پر تربیت کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“بے شک اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور قرابت داروں کو حقوق دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔” (سورۃ النحل: 90)
اسلامی تعلیمات ہمیں ایمانداری، دیانتداری، انصاف، بھائی چارے اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتی ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“میں مبعوث صرف اس لیے کیا گیا کہ اخلاق حسنہ کو مکمل کروں۔” (صحیح مسلم)
موجودہ حالات میں پاکستانی معاشرے کو انہی اسلامی اقدار اور اسوہ حسنہ کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام الناس میں بڑھتے ہوئے معاشرتی اور اخلاقی زوال کا بخوبی مقابلہ کیا جا سکے۔
ہمیں یہ ابتدا اپنے اپنے گھروں سے کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ والدین بچوں کے اولین رہنما اور رول ماڈل ہوتے ہیں اور نومولود سب سے پہلے اپنے والدین سے ہی متاثر ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں والدین کی ذمہ داری کو واضح کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
“اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔” (سورۃ التحریم: 6)
یہ آیت والدین پر زور دیتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت کریں۔ اگر والدین خود اسلامی تعلیمات اور اقدار سے دوری اختیار کرتے ہیں اور غیر اسلامی، غیر قانونی یا غیر اخلاقی اعمال، جیسے رشوت خوری، بدعنوانی، حقوق العباد کی خلاف ورزی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی یا دوسروں کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتے ہیں تو لازماً بچے بھی انہی رویوں کو اپناتے ہیں، جس سے معاشرے میں منفی اقدار کو فروغ ملتا ہے۔ والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی اصلاح کے لیے ان کو دینی تعلیم و تربیت سے روشناس کرائیں اور بچپن سے ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات سکھائیں۔
ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: “تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے”(صحیح بخاری)۔
اس لیے بچوں کو قرآن کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر سے روشناس کروانا چاہیے۔ یہ چیز والدین کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بچے والدین کے اعمال سے سیکھتے ہیں اس لیے والدین کو اپنے قول و فعل کے ذریعے ایمانداری، سچائی اور دوسروں کے حقوق کا احترام سکھانا چاہیے۔
جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےکہ: “جھوٹ بولنے والا ہم میں سے نہیں” (صحیح مسلم)۔
اس لیے والدین کو خود جھوٹ، رشوت اور بدعنوانی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ گھر میں بچوں کو ایک مثبت ماحول مہیا کیا جائے اور اسلامی اقدار جیسے صبر، شکر، قناعت اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔ والدین بچوں کے ساتھ باقاعدگی سے دینی و اخلاقی گفتگو کریں اور انہیں نیک کردار کی طرف راغب کریں۔
والدین کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اساتذہ کے کردار کی ہوتی ہے۔ اساتذہ معاشرے کی اصلاح کا اہم ترین ستون ہوتے ہیں۔ اسلام میں استاد کا مقام بہت بلند ہے، کیونکہ وہ معاشرے کو علم اور اخلاق کی تربیت دیتا ہے۔ اس لیے اپنی اس اہم ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اساتذہ کا یہ اولین فرض بنتا ہے کہ وہ طلبہ کو نہ صرف دنیاوی علم بلکہ اسلامی اخلاقیات بھی سکھائیں۔ اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے اساتذہ طلبہ کو قرآن کی آیات اور احادیث کی روشنی میں ایمانداری، انصاف، حقوق العباد اور سماجی ذمہ داری کی تعلیم دیں ۔ بچوں کی کردار سازی کے لیےاساتذہ کو اپنے رویوں سے طلبہ کے سامنے ایک مثالی کردار پیش کرنا چاہیے۔ چونکہ بچے اپنے والدین کے بعد سب سے زیادہ تقلید اپنے اساتذہ کی کرتے ہیں اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ خود معمولات زندگی میں دیانتداری اور انصاف کا مظاہرہ کریں تاکہ طلبہ ان سے متاثر ہوں۔ اسکولوں میں دینی مقابلوں، جیسے قرأت، نعت خوانی اور اسلامی شعائر پر تقریری مقابلوں کے پروگرامز منعقد کیے جائیں تاکہ طلبہ کی دینی اقدار سے وابستگی بڑھے۔
وسیع پیمانے پر معاشرے کی اصلاح کے لیے بنیادی اقدامات اٹھانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ حکومت ہی ایک اسلامی معاشرے کی اصلاح، استحکام اور عدل و انصاف کی ذمہ دار ہے۔ اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف کو انتہائی کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اسی تناظر میں قرآن مجید میں عدل و انصاف کی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ:
“اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو، گرچہ خود تمہارے خلاف یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔” (سورۃ النساء: 135)
یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں اور ناقابلِ تردید ہے کہ عصرِ حاضر میں پاکستانی معاشرہ اخلاقی پستی اور روحانی انحطاط کے ایک شدید بحران سے دوچار ہے۔ صریح بدعنوانی، گہری معاشرتی ناانصافی، ایک بوسیدہ عدالتی ڈھانچہ اور قانون کی کمزور عملداری وہ مہمیز ہیں جنہوں نے اس اخلاقی زوال کی آگ کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ اس صورتحال کا واحد شافی علاج اسلامی تعلیمات کی روحانی قوت اور ابدی رہنمائی کو عملی جامہ پہنانے میں مضمر ہے۔
ریاستی ڈھانچے کی اصلاح اور اس کی مضبوطی کے لیے لازم ہے کہ حکومت اسلامی اصولوں کی روشنی میں قانون کی بے لچک عملداری کو یقینی بنائے۔ رشوت خوری اور بدعنوانی، جو درحقیقت معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں، ان کے خلاف سخت ترین اور عبرت ناک سزائیں متعارف کرائی جائیں۔ اس کی بنیاد پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح فرمان ہے کہ:
“رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔” (سنن ابن ماجہ)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اس سنگین گناہ کی معاشرتی سطح پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ریاست کو اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں کی طرف لوٹنا ہوگا، جہاں شہریوں کی بنیادی ضروریات کی کفالت ریاست کی مقدس ذمہ داری ہو۔ غربت اور معاشی عدم مساوات اکثر اخلاقی گراوٹ کا بنیادی سبب بنتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمارے لیے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ تاریخی فرمان مشعلِ راہ ہے کہ:
“اگر دریائے دجلہ اور فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرے گا تو عمر بن الخطاب روز محشر اس کا جواب دہ ہوگا۔”
یہ اصول ریاست کے ہر ذمہ دار کو احساسِ ذمہ داری کا درس دیتا ہے۔
معاشرتی تبدیلی کا نقطۂ آغاز تعلیمی اداروں سے ہوتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں اسلامیات اور بالخصوص اسوہ حسنہ (نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ) کو محض ایک مضمون نہیں، بلکہ ایک عملی رہنمائی کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ اساتذہ کی تربیت کے پروگرامز میں اخلاقی اقدار اور کردار سازی پر گہری توجہ دی جائے، تاکہ وہ صرف معلومات فراہم کرنے والے روبوٹ نہ بنیں بلکہ طلبہ کے لیے عملی نمونہ ثابت ہوں۔
کسی بھی معاشرے کی اصلاح یا بگاڑ میں اس کی اشرافیہ کا کردار نہایت کلیدی ہوتا ہے۔ سیاسی قائدین، سماجی راہنما، کاروباری شخصیات اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد عوام کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ عوام الناس ان کے رویوں سے متاثر ہوتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے ان کی تقلید کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کامیاب لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“اور جو لوگ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے ہیں اور صبر کرتے ہیں اور اپنے مال سے خیرات دیتے ہیں، وہی کامیاب ہیں۔” (الرعد: 22)
اشرافیہ چونکہ قوم کی رہبری کی دعویدار اور ذمہ دار ہوتی ہے، اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اعمال اور بلند کردار سے اسوہ حسنہ اور اسلامی اقدار کو فروغ دیں۔ سیاسی، مذہبی اور کاروباری افراد کو اپنے روزمرہ معمولات میں اعلٰی اخلاقی معیار، ایمانداری اور شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
“امانت اٹھائی گئی تو قیامت قائم ہو جائے گی۔” (صحیح بخاری) امانت داری، جو کہ ایمانداری کا دوسرا نام ہے، تمام اخلاقی اقدار کی بنیاد ہے۔
موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا، لوگوں کے ذہنوں اور افکار پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے وطن میں ذرائع ابلاغ نے مادہ پرستی، کاروباری مفادات اور مغربی تہذیب کے زیرِ اثر آ کر تمام مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو طاقِ نسیاں پر رکھ چھوڑا ہے۔
اب یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس منفی رحجان کو کنٹرول کرے اور ذرائع ابلاغ، خصوصا الیکٹرانک میڈیا کی طاقت کو معاشرے کی اصلاح کے لئے مثبت طریقے سے استعمال کرے۔ بحیثیت مجموعی ذرائع ابلاغ کو اپنی خبروں، اشتہارات، ڈراموں اور تفریحی پروگرامز میں اسلامی معاشرتی اقدار، جیسے صلہ رحمی، پردہ داری، شرم و حیا، ایمانداری، دیانتداری، سچائی، رواداری، حسن سلوک، حقوق العباد اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے۔ جبکہ تمام غیر اسلامی اقدار، بے حیائی، مادہ پرستی، ملک و قوم کے خلاف منفی پروپیگنڈا اور سنسنی خیزی پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں علماء اور مذہبی رہنماؤں کو ایک خاص روحانی اور معاشرتی مقام حاصل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“علماء انبیاء کے وارث ہیں” (سنن ابوداؤد)۔
اس عظیم منصب کے پیشِ نظر، علماء کو مساجد اور دینی مراکز کے ذریعے لوگوں میں اسلامی اقدار، ایمانداری، حقوق العباد، باہمی محبت اور رواداری کا جامع پیغام پھیلانا چاہیے۔ انہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں لوگوں کی کامل رہنمائی اور کردار سازی کرنی چاہیے۔ معاشرے میں دینی شعور کی بیداری کے لیے مساجد، مدرسوں اور کمیونٹی مراکز میں ایسے باقاعدہ دینی پروگرامز منعقد کیے جائیں جو لوگوں کو اسلامی معاشرتی اخلاقیات سے فیض یاب کریں۔
حرف آخر:
یہ حقیقت ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اسلامی معاشرے کی مضبوطی کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر فرد کی ذمہ داری کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: “تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔” (صحیح بخاری)
اس حدیث کے مطابق، ہر اہل ایمان کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک پختہ مسلمان اور نیک انسان بننا چاہیے۔ افراد کے باہمی اشتراک اور انفرادی اصلاح کے بغیر ایک مثالی معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ جب ہر فرد خود احتسابی کے ذریعے اپنی اصلاح کر لے گا، تو بحیثیت مجموعی معاشرتی ڈھانچے پر انتہائی مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ہم اسلامی اقدار کی شمع کو دوبارہ روشن کر کے ایک صالح اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں وماالينا الا لبلاغ۔
تحریر:عبدالجبار ترین


Leave feedback about this