حالیہ پاک بھارت جنگ نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو متاثر کیا ہے بلکہ اس نے عالمی سطح پر ٹیکنالوجی اور فوجی طاقت کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان نے چینی ساختہ جدید ترین ہتھیاروں اور دفاعی نظاموں کا استعمال کرتے ہوئے بھارت کو ہوائی اور زمینی محاذ پر عبرت ناک شکست دی۔ یہ معرکہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ چین کی ٹیکنالوجی، جسے ماضی میں مغربی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا تھا، اب نہ صرف مساوی سطح پر پہنچ چکی ہے بلکہ کئی شعبوں میں اس سے آگے نکل چکی ہے۔ اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ عالمی سطح پر دو متوازی نظاموں(یعنی مغربی اور چینی نظام)کے ظہور کی ابتدا ہے؟
فضائی محاذ پر اس جنگ میں پاک فضائیہ نے چین کے بنے ہوئے J-10Cاور JF-17 تھنڈر طیاروں کا استعمال کیا، جو جدید ترین ایویونکس، الیکٹرانک وارفیئر اور لانگ رینج میزائل سسٹمز سے لیس ہیں۔ ان طیاروں نے بھارتی رافیل طیاروں کے خلاف، جو فرانس میں تیار کیے گئے ہیں اور امریکی ٹیکنالوجی سے مزین ہیں، اپنی برتری ثابت کی۔ خاص طور پر، چینی ساختہ PL-15 میزائلز نے بھارتی طیاروں کو 150 سے 200 کلومیٹر دور سے ہی نشانہ بنانے کی صلاحیت کا کامیاب مظاہرہ کیا، جس سے یہ ثابت ہوا کہ چین اب ہوائی جنگ کے میدان میں امریکہ اور یورپ کے ہم پلہ ہو چکا ہے۔
زمینی جنگ میں بھی پاکستان نے HQ-9 اور LY-80 ایئر ڈیفنس سسٹمز استعمال کیے، جو چین کے جدید ترین اینٹی میزائل ڈیفنس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ ان نظاموں نے بھارتی برہموس کروز میزائلز اور دیگر گائیڈڈ میزائلوں کو کامیابی سے ناکارہ بنا دیا۔ یہ کامیابی چین کی میزائل ٹیکنالوجی کی برتری کو ظاہر کرتی ہے، جو اب روسی اور امریکی نظاموں کے برابر سمجھی جاتی ہے۔
ڈرون اور سائبر وارفیئر میں بھی پاکستان نے چینی ساختہ CH-4 اور Wing Loong-II ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ یہ ڈرونز چین کی اعلی درجے کی سینسر ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے مزین ہیں، جو انہیں امریکی MQ-9 ریپر ڈرونز کا حقیقی متبادل بناتے ہیں۔ مزید برآں، پاکستان نے سائبر وارفیئر کے ذریعے بھارتی مواصلاتی نیٹ ورکس کو نشانہ بنایا، جو چین کی سائبر سیکیورٹی میں ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔
چینی کی جنگی ٹیکنالوجی کی حالیہ کامیابی نے مغربی ٹیکنالوجی پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور بین الاقوامی طور پر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا دنیا میں امریکہ اور یورپ کی جنگی ٹیکنالوجی کا غلبہ ختم ہو رہا ہے؟
پچھلی چند دہائیوں سے بھارت کا مغربی اسلحہ پر انحصار بڑھ گیا تھا اور بھارت نے اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے مریکی، فرانسیسی اور اسرائیلی ہتھیاروں پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ اس کے باوجود رافیل طیارے (فرانسیسی ساختہ)چینی طیاروں کے مقابلے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔ روسی ساختہ ایس-400 ایئر ڈیفنس سسٹم نے بھی پاکستانی میزائل حملوں کو روکنے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ پاکستانی شاہینوں نے تو ایس 400 کی ایک بیٹری بھی تباہ کر دی اسی طرح اسرائیلی ساختہ اسپائیک میزائلز بھی زمینی جنگ میں مطلوبہ نتائج نہ دے سکے کیونکہ پاکستانی افواج نے ان کو الیکٹرانک طریقے سے بھی گرایا اور زمینی یونٹس نے فائرنگ کرکے بھی کامیابی سے ان کو نشانہ بنایا
اسی طرح اسرائیلی ڈرونز کو بھی ہماری افواج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔ یہ تمام ناکامیاں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ مغربی ٹیکنالوجی کا وہ غلبہ، جو دہائیوں سے قائم تھا، اب چینی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کمزور پڑ رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین نے مغربی ٹیکنالوجی کو واقعی پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی چین کے حق میں ہے کیونکہ چین نے گزشتہ دو دہائیوں میں میڈ ان چائنا کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی فوجی اور تکنیکی خود انحصاری کو یقینی بنایا اور اس کا نتیجہ دنیا نے حالیہ مختصر پاک بھارت جنگ میں بھی دیکھ لیا ہے۔ اس جنگ نے ثابت کیا کہ چین اب صرف نقل کرنے اور معکوس انجینیرنگ کرنے والا ملک نہیں، بلکہ ایک جدید ٹیکنالوجی ایکسپورٹر ہے جو کماحقہ امریکہ اور یورپ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا دنیا دو بلاک یعنی چینی اور مغربی بلاک، میں تقسیم ہو رہی ہے؟ تو اس کا جواب بھی ہاں میں ہے۔
مغربی بلاک میں امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، جاپان، اسرائیل، مشرق وسطی کے عرب ممالک، ہندوستان اور ان کے طفیلی ایشیائی اور افریقی ممالک شامل ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی، عالمی مالیاتی نظام (ڈالر کی بالادستی)، آء ایم ایف، عالمی بنک اور سب سے بڑھ کے اقوام متحدہ پر بالادستی اور NATO جیسا طاقتور فوجی اتحاد ہے۔ مغربی بلاک کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ جیسے چین کے مقابلے میں ان ممالک کی مینوفیکچرنگ لاگت زیادہ ہے۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کی منتقلی پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
دوسری طرف چین کی قیادت میں جو نیا اتحادی بلاک بن رہا ہے اس میں چین، روس، پاکستان، ایران، عراق، افغانستان، یمن اور بہت حد تک بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور برما کا جھکا بھی اسی طرف ہے۔ اس کے علاوہ ایشیا اور افریقہ کے کافی ممالک کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ ان کی طاقت کا محور سستی اور موثر فوجی ٹیکنالوجی، کم لاگت کی صنعتی اور الیکٹرانک پیداوار، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، امریکہ سے آزاد مالیاتی نظام (چینی ڈیجیٹل یوآن) کے علاوہ روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کا اتحاد شامل ہیں۔ یہ بلاک تیزی سے ترقی کر رہاہے، اس کا مغرب پر انحصار کم ہورہاہے اور ایشیا اور افریقہ میں اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حالیہ پاک-بھارت جنگ کے نتائج نے اس بلاک کی طاقت کو دنیا پر آشکار کر دیا ہے اور ہندوستان کو آگے رکھ کر چین کا گھیرا کرنے کا امریکی منصوبہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔
اب واضح طور پر ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ماضی میں جس طرح سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین دو الگ نظاموں میں تقسیم تھے، اب چین اور امریکہ کے درمیان اسی طرح کی تقسیم نظر آ رہی ہے۔
حالیہ پاک بھارت جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ چین حقیقت میں ایک سپرپاور بن چکا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ٹیکنالوجیکل غلبہ کا دور نہ صرف اپنے انجام کو پہنچ چکا، بلکہ چین کی فوجی ٹیکنالوجی اب مغرب کے لیے ایک حقیقی چیلنج کا روپ دھار چکی ہے۔
مستقبل میں اگر چین اسی رفتار سے ترقی کرتا رہا، تو یہ نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا حریف بن جائے گا۔ چین کا عروج ایک نئی “کثیر قطبی دنیا” کی نشاندہی کرتا ہے جہاں طاقت کا توازن بلا شبہ مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور بظاہر عالمی طاقتوں کا نیا توازن تشکیل پا رہا ہے۔
تحریر :عبدالجبار ترین


Leave feedback about this