وفاقی حکومت آئندہ 2ماہ میں آئینی بینچوں کے لیے 7ججوں کو اپنی مرضی سے نامزد کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ایک سینئر حکومتی اہلکار نے کہا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک کو بھی نامزد کیا گیا ہے حالانکہ ماضی قریب میں انھوں نے موجودہ حکومت کے خلاف فیصلے دیے۔حالیہ تنازع کے پیش نظر جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو آئینی بنچوں کے لیے نامزد کرنا مشکل تھا۔تاہم اب یہ بوجھ 7ججوں پر ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے آئینی بنچوں کے لیے نامزد ہونے کے باوجود ثابت کریں کہ وہ اثر و رسوخ کے بغیر کام کریں گے ۔جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس حسن اظہر رضوی 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے پر دستخط کرنے والے تھے۔فیصلے پر ابھی بھی عملدرآمد ہونا باقی ہے اور 12 جولائی کے اکثریتی حکم نامے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں ابھی تک زیر التوا ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر صلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ حکومت نے رانا ثنا اللہ کے ویژن پر کامیابی سے عمل درآمد کرایا اورجوڈیشل کمیشن کیلئے پاکستان بار کونسل کے نامزد امیدوار اختر حسین اور خود نامزد جج جسٹس امین الدین خان کی حمایت حاصل کی، اب حکومت کی طرف سے بنائے گئے بنچز حکومت کے خلاف مقدمات کی سماعت کریں گے۔عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے کہ عدلیہ پر قبضہ کا مشن مکمل ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کے سب سے اوپر، اس کے آئینی بنچوں کے پریزائیڈنگ ججز کے اوپر ایک ایسا آدمی ہے جس کی آخری آئینی رائے یہ تھی کہ حکومت کو سپریم کورٹ کی بات نہیں ماننی چاہیے، ہائبرڈ جمہوریت کے بعد ہم ہابرڈ عدلیہ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی آج کی میٹنگ اور اس کے ججوں پر مشتمل آئینی بنچ کی تقرری متوقع تھی کیونکہ یہ ججزسابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے ساتھ بنچ پر بیٹھا کرتے تھے اور عام طور پر ان کے فیصلوں سے اتفاق کرتے تھے ، ایک اور وکیل نے افسوس کا اظہار کیا کہ پہلی بار پارلیمنٹ آزاد ذہن کے ججوں کو سائیڈ لائن کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ دلچسپ ہوگا کہ اگلے دو ماہ میں آئینی بنچوں کے سامنے کون سے کیسز سماعت کیلئے مقرر ہونگے۔
Leave feedback about this