پاکستان محض ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک عظیم فکری، سیاسی اور اخلاقی جدوجہد کا ثمر ہے، جس کی قیادت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی۔ بدقسمتی سے آج 78 برس گزرنے کے بعد بھی یہ سوال پوری شدت سے موجود ہے کہ کیا ہم وہ پاکستان بنا سکے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟ اگر نہیں، تو کہاں اور کیوں بحیثیت قوم ہم نے غلط راستہ اختیار کیا؟
قائداعظم کے نزدیک پاکستان ایک جدید، آئینی اور جمہوری ریاست ہونی چاہیے تھی، جہاں قانون کی حکمرانی ہو، تمام شہری برابر ہوں، مسلمانوں اور تمام اقلیتوں کی مذہبی آزادی محفوظ ہو اور ریاست کا کام عوام کی فلاح ہو۔ 11 اگست 1947ء کی تقریر میں انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ ریاست کا شہریوں کے مذہب، نسل یا عقیدے سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ان کا تصورِ ریاست تنگ نظری یا انتہا پسندی پر نہیں بلکہ انصاف، رواداری اور مساوات پر مبنی تھا۔
قائداعظم پاکستان کو آئینی جمہوریت کے خطوط پر چلانا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک پارلیمان بالادست، عدلیہ آزاد، اور انتظامیہ عوام کی خادم ہونی چاہیے تھی۔ وہ شخصی حکمرانی، خاندانی سیاست اور اداروں کی کمزوری کے سخت مخالف تھے۔ اسی لیے انہوں نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ پاکستان افراد کے سہارے نہیں بلکہ مضبوط اداروں کے ذریعے چلے گا۔
گڈ گورننس قائداعظم کے فکر کا مرکزی ستون تھی۔ انہوں نے بدعنوانی، اقربا پروری اور سفارش کو قوم کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا۔ ان کے نزدیک میرٹ، دیانت داری اور احتساب کے بغیر کوئی ریاست ترقی نہیں کر سکتی۔ وہ چاہتے تھے کہ بیوروکریسی طاقت ور طبقہ بننے کے بجائے عوامی خدمت کا ذریعہ ہو اور قانون کا اطلاق امیر و غریب، طاقت ور و کمزور سب پر یکساں ہو۔
سیاسی طور پر قائداعظم ایک مضبوط مگر جمہوری ریاست کے حامی تھے۔ وہ فوج کو سیاست سے دور، سیاسی جماعتوں کو منظم اور عوام کو فیصلہ سازی کا اصل سرچشمہ سمجھتے تھے۔ معاشی میدان میں ان کا وژن ایک فلاحی ریاست کا تھا جہاں محنت کش کو تحفظ، صنعت و زراعت کو ترقی، اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ انتظامی سطح پر وہ سادگی، شفافیت اور تیز انصاف کے قائل تھے۔
تاہم قائداعظم کی وفات کے فوراً بعد پاکستان جس راستے پر چلا، وہ ان کے وژن سے بتدریج دور ہوتا گیا۔ آئین سازی میں تاخیر، جمہوری عمل کا بار بار تعطل، مارشل لاز کا نفاذ، تمام آئینی اداروں کی کمزوری اور شخصیات کی بالادستی نے ریاستی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا۔ بدعنوانی ایک معمول بن گئی، میرٹ کو پسِ پشت ڈال دیا گیا اور صوبائی حقوق کو نظرانداز کیا گیا۔
ہم نے قومی سطح پر تعلیم، تحقیق اور انسانی ترقی کو وہ اہمیت نہ دی جو ایک جدید ریاست کے لیے ضروری تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم فکری طور پر کمزور، معاشی طور پر محتاج اور سیاسی طور پر منقسم ہوتی چلی گئی۔ خارجہ پالیسی میں بھی مستقل مزاجی کے بجائے وقتی مفادات کو ترجیح دی گئی، جس سے قومی خودمختاری اور وقار متاثر ہوا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے قائداعظم کے نظریات پر عمل کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قائداعظم کا نام تو بہت لیا، مگر ان کے اصولوں کو ریاستی طرزِ عمل کا حصہ نہ بنا سکے۔ قانون کی بالادستی کمزور رہی، جمہوریت بار بار پٹری سے اتری، اور رواداری کی جگہ انتہا پسندی اور عدم برداشت نے لے لی۔
تاہم مایوسی کا راستہ قائداعظم کے فلسفے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آج بھی اگر سنجیدگی سے ان کے اصولوں کو اپنایا جائے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی اور سیاسی استحکام کے لیے ہمیں بحیثیت قوم کچھ اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے قلیل المدتی اقدامات میں قومی سطح پر ہمیں سخت اور بلاامتیاز احتساب، بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ، انتخابی و عدالتی اصلاحات، تعلیم و صحت میں ہنگامی سرمایہ کاری، انصاف اور قانون کی بالادستی، انسانی سرمائے کی ترقی، تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور بیوروکریسی میں میرٹ کا نفاذ یقینی بنانا ہو گا۔
طویل المدتی اقدامات میں آئینی بالادستی، تمام آئینی اور قومی اداروں کی مضبوطی، بااختیار اور شفاف انتخابی و بلدیاتی نظام، قومی سطح پر معیشت کی دستاویزی شکل، قومی سطح پر یکساں تعلیمی نصاب، قوم کی عمومی اور نوجوانوں کی خصوصی فکری و اخلاقی تربیت ہی پاکستان کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ نصابِ تعلیم میں قائداعظم کی فکر کو محض نعروں کے بجائے عملی اقدامات کے طور پر قومی زندگی میں شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
قائداعظم نے پاکستان کو ایمان، اتحاد اور تنظیم کے اصولوں پر استوار کرنا چاہا تھا۔ اگر ہم واقعی ایک مضبوط، خوددار اور خوشحال پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں کھوکھلی جذباتی تقاریر کی بجائے عملی فیصلے کرنا ہوں گے۔ قوم کی کردار سازی کرنا ہو گی۔ قائداعظم کا پاکستان کوئی خیالی تصور نہیں بلکہ ایک قابلِ عمل جديد ریاست کا ماڈل تھا جسے اب بھی حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم نہایت ایمانداری اور خلوصِ نیت سے قائداعظم کی طے کردہ سمت میں چلنے کا فیصلہ کریں۔ وماالينا الا لبلاغ۔
تحریر:عبدالجبار ترین
