اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ نیب ترامیم میں بہت سے جرائم یا تو ختم کردئیے گئے یا تبدیل کردئیے گئے، نیب ترامیم سے کچھ جرائم کو ثابت کرنا انتہائی مشکل بنا دیا گیا نیب قانون میں کئی خامیاں ہیں اور اس کا اطلاق بھی درست انداز میں نہیں کیا گیا۔ہمارے نمائندے کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے جس پر چیف جسٹس نے انہیں گڈ ٹو سی یو کہا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے حوالے سے ایک خبر میں کہا گیا کہ میں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں خامیوں کو تسلیم کیا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو عدالتی حکم کا حصہ ہے تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے متعلقہ حکم پڑھنا چاہتا ہوں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے کہا تھا پریکٹس اینڈ پروسیجراور نظرثانی ایکٹ’’اوورلیپ‘‘ کرتے ہیں، میرے سامنے اخبار ہے جس میں مجھ سے منسوب بات چھپی، خبر کے مطابق مجھ سے منسوب کیا گیا کہ میں نے نقائص تسلیم کیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ انگریزی اخبارات میں خبر رپورٹر کے نام سے شائع کیوں نہیں کی جا رہیں؟ معلوم نہیں کیا یہ کوئی سنسر شپ کا نیا طریقہ آیا ہے؟ کچھ ترامیم بہت ذہانت کے ساتھ کی گئیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ نے تو تسلیم کیا قوانین میں مطابقت نہیں، جو قانون سازی کی گئی اس سے چیف جسٹس پاکستان کو ربڑ اسٹمپ بنا دیا گیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے دیکھا اگست میں پارلیمنٹ قانون سازی کیلئے بہت متحرک رہی، پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ری ویو ایکٹ پر نظرثانی پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں تھی، اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کی وضاحت کو تسلیم کرتے ہیں۔