اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایجنسیز کے کام کرنے کا طریقہ کار واضح ہو جائے تو اچھا ہوگا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی اور کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے، اس کے علاوہ گمشدہ بلوچ طلبا کی جانب سے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے لاپتہ افراد کی کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ پچھلے 10 سال میں بلوچ طلبا کے خلاف دہشت گردی کے کتنے کیسز درج کئے گئے، کتنے لوگ گرفتار ہوئے، لاپتہ ہوئے یا ہراساں کیا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کسی بھی شخص کو ہراساں نہیں کر سکتیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کوئی بھی عدالت، جج، وکیل، صحافی، رکن اسمبلی ایجنسیوں کو قانون کے مطابق کام سے روکنے کی بات نہیں کرتے، صرف خلاف قانون کام کرنے سے روکنے کی بات کرتے ہیں، ایجنسیز کے کام کرنے کا طریقہ کار واضح ہو جائے تو اچھا ہوگا، کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ صحافی ہو یا پارلیمنٹیرینز دہشت گردوں کی سپورٹ نہیں کر رہا۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جب تک سیاسی طور پر اس معاملے کو حل نہیں کیا جاتا تب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مطلب یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، یہ 21 ویں سماعت ہو رہی ہے، جنگ میں بھی سفید جھنڈا لہرا کر سیز فائر کی جاتی ہے، بات چیت کر کے حل نکالا جاتا ہے۔