معرکہ حق(6 سے 10 مئی 2025)، پاک بھارت جنگی تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جسے پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ ایک طرف دنیا کی چوتھی بڑی فوجی طاقت، ڈیڑھ ارب کی آبادی پر مشتمل بھارت اور دوسری طرف ایک سات گنا چھوٹا ملک پاکستان، جس نے نہ صرف ہندوستان کی جارحیت کا موثر دفاع کیا بلکہ اس کا غرور بھی خاک میں ملا دیا۔ یہ ایک عظیم کامیابی تھی، مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم تھا۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
“اور نصرت صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ بے شک اللہ زبردست، حکمت والا ہے۔” (سور الانفال: 10)
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کامیابی ہماری اپنی طاقت، منصوبہ بندی یا ہتھیاروں کی مرہونِ منت نہیں، بلکہ یہ محض اللہ تعالی کی عطا ہے۔ اگر ہم اس کامیابی پر غرور کرنے لگیں، تو ہم وہی غلطی دہرا رہے ہوں گے جو پچھلی اقوام نے کی اور پھر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا۔
تکبر قوموں کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم اپنی کامیابیوں پر غرور کرنے لگی، اس کا زوال شروع ہو گیا۔ اللہ تعالی نے شیطان کو صرف اس لیے راند درگاہ کیا کہ اس نے تکبر کیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے پر بولا:
“میں اس سے بہتر ہوں” (سور ص: 76)
یہی تکبر اگر کسی فرد یا قوم کے دل میں آ جائے تو وہ اللہ کی مدد سے محروم ہو جاتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ جنگ میں فتح کے بعد ہم نے بطور قوم اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے، سوشل میڈیا پر جشن، میمز، مذاق، اور دشمن کی تذلیل کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔ ہم نے اپنے شہدا کو یاد کرنے کے بجائے اپنے “فاتح” ہونے پر اترانا شروع کر دیا۔ یاد رکھیں! اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ:
“خوشی سے اترانے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا” (سور القصص: 76)
یہ خوشی، اگر اللہ کی نعمت پر شکر بن جائے تو باعثِ رحمت ہے، لیکن اگر یہ غرور، تکبر اور دشمن کی تذلیل بن جائے، تو اللہ کی پکڑ قریب آ جاتی ہے۔ اس لئے خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ سجدہ شکر بھی بجا لائیں تاکہ اللہ سبحانہ تعالی کی رحمت شامل حال رہے۔
ہمیں من حیث القوم یاد رکھنا چاہیے کہ خود احتسابی ہی کامیابی کا اصل راز ہوتی ہے۔ کامیابی کے بعد ایک مومن قوم کا رویہ عاجزی، شکرگزاری اور خود احتسابی پر مبنی ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ ہماری خامیاں کیا تھیں، دشمن ہمیں نقصان پہنچانے میں کہاں اور کیسے کامیاب ہوا، ہم کیسے اس سے بھی بہتر کارکردگی دکھا سکتے تھے اور ہماری کون سی کمزوریاں سامنے آئی ہیں جن کو ہمیں جلد از جلد دور کرنا چاہیے۔
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے:
“اور (اے مسلمانو!) ان (دشمنوں) کے مقابلے کے لیے جس قدر طاقت تم جمع کر سکو، اور پلے ہوئے گھوڑوں کی تیاری رکھو، تاکہ تم اس کے ذریعے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو، (سور النفال:60)
اس آئت میں مسلمانوں کو واضح طور پر ہر وقت جہاد کے لیے پوری قوت جمع رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ دشمنوں پر ہیبت طاری رہے اور وہ آپ پر حملہ سے اجتناب کریں۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ آئندہ اگر دشمن دوبارہ حملہ کرے تو ہم کس حد تک تیار ہیں۔ کیا ہماری قوم متحد ہے؟ کیا ہمارے دفاعی نظام میں کوئی خامی تو باقی نہیں ہے؟ کیا ہم نے اپنی معیشت کو اتنا مستحکم کیا ہے کہ لمبی جنگ کا سامنا کر سکیں؟ ان سوالات کا ہمیں بحیثیت قوم گہرائی میں جا کر جائزہ لینا چاہیے۔
ایک مسلمان کے طور پر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ سبحانہ تعالی کی شکر گزاری اس کی نعمت کے دوام کی ضمانت ہوتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
“اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے”
(سور ابراہیم: 7)
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اجتماعی طور پر اللہ سبحانہ تعالی کا شکر بجا لائیں۔ نمازوں کی پابندی، صدقہ و خیرات، شہدا کے لیے دعا، اور قومی اصلاح کریں، یہ سب شکر کے عملی مظاہر ہیں۔ سوشل میڈیا پر جشن منانا شکر نہیں کہلاتا اور صرف زبان سے کہنا کافی نہیں ہے بلکہ شکر ہمارے عمل اور کردار سے بھی ظاہر ہونا چاہیے۔ ایک جیت کے بعد ہمیں مستقبل کی تیاری کرنی چاہیے۔ پوری قوم کو ایمان اور اتحاد کے ساتھ آنے والے وقت کا چیلنج قبول کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں ہمارا پالا ایک انتہائی مکار دشمن سے پڑا ہے جو چانکیہ افکار سے راہنمائی لیتے ہیں جس میں اخلاقیات کا ذرا بھی دخل نہیں ہے۔ ہندوستان ایک بار شکست کھا کر بیٹھ نہیں جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دشمن ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ اور جب ہمیں کمزور سمجھتا ہے تو وار کرتا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے اگلی جارحیت کسی اور شکل میں بھی ہو سکتی ہے جیسے سائبر حملے، معیشت پر حملہ، ففتھ جنریشن وار، دہشت گردی، ہمارے اندرونی انتشار کو ہوا دینا، سفارتی جنگ اور پراپیگنڈا کے ذریعے نفسیاتی جنگ ہے ۔ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرکے ہندوستان نے آبی جارحیت کی ابتدا تو کر بھی دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ حالیہ ذلت آمیز شکست کے بعد ہندوستان شاید سامنے سے وار نہ کرے کیونکہ اس کو افواج پاکستان کی جنگی تیاری اور جذبہ جہاد کے علاوہ ہمارے قومی مزاج کا بھی بخوبی اندازہ ہو چکا ہے اس لئے وہ ضرور ہماری پشت میں خنجر گھونپنے کی کوشش کرے گا۔
لہذا اب وقت ہے کہ ہم مندرجہ ذیل نکات سامنے رکھتے ہوئے ایک جامع قومی پالیسی ترتیب دیں اور خلوص نیت سے اس پر عمل کریں:
1۔ قومی وحدت و یکجہتی کو فروغ دیں، لسانی، فرقہ وارانہ یا سیاسی اختلافات کو دشمن کے لیے ہتھیار نہ بننے دیں۔
2. معاشی خود کفالت کو ترجیح دیں، دفاع صرف اسلحے سے نہیں، معیشت سے بھی مضبوط ہوتا ہے۔
3. تعلیم اور ٹیکنالوجی پر توجہ دیں، تاکہ ہم سائبر وارفئیر اور جدید جنگی حکمت عملیوں کا سامنا کر سکیں
4. ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔
5. تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔
6۔ اپنی مسلح افواج کی بھرپور سپورٹ اور حوصلہ افزائی جاری رکھیں۔
7. مسلح افواج بھی ایسی پالیسی بنائیں کہ عوام اور ان کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو اور ایسا کوئی تاثر نہ بنے کہ وہ کسی خاص سیاسی شخصیت یا جماعت کے خلاف ہیں۔
8. من حیث القوم دعاں اور تقوی کو اپنائیں کیونکہ اللہ کی مدد کا وعدہ صرف انہی لوگوں کے لیے ہے جو تقوی والے ہوتے ہیں۔ جیسا قرآن مجید میں ارشاد ہے:
“اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین پر چلو گے)، تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا” (سور محمد: 7)
آخر میں ایک بار پھر گزارش ہے کہ عاجزی اور شعور ہی کامیابی کا اصل سرمایہ ہوتا ہے۔ معرکہ حق قوم کے لیے ایک سبق بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ سبق یہ کہ دشمن کو کبھی بھی کمزور نہیں سمجھا جا سکتا، اور موقع یہ کہ ہم خود احتسابی کریں اور اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پا کر اپنے آپ کو بہتر بنائیں۔ اگر ہم آج اللہ سبحانہ تعالی کے شکر گزار بن جائیں، عاجزی اپنائیں، اور اگلی آزمائش کی تیاری کرلیں تو اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ رہے گی۔ انشااللہ۔
آئیں! سب مل کر اللہ سبحانہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ہمیں ایک باوقار اور متحد قوم بنائے۔ ہمیں فتح پر عاجزی عطا فرمائے، شکر گزاری کی توفیق دے اور آئندہ دشمن کی ہر چال اور ہر فتنے سے ہمیں محفوظ فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
عبدالجبار ترین