غیرت انسانیت کا ایک ایسا جوہر ہے جو اسے نہ صرف اپنے حقوق کے تحفظ پر آمادہ کرتا ہے بلکہ اپنے تشخص، وقار اور اپنی سرزمین کی حرمت کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو قوموں کو پستی سے اٹھا کر عروج کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے، اور انہیں مشکل ترین حالات میں بھی اپنے قومی وقار کے لیے ثابت قدم رہنے کی ہمت دیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے اپنی غیرت کا سودا کیا، اسے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے برعکس، جب بھی کسی قوم نے غیرت کا دامن تھاما، اس نے بظاہر ناممکن چیلنجز کو بھی شکست دی اور اپنی بقا اور آزادی کو یقینی بنایا۔ حالیہ دنوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ قومی غیرت کے اسی جذبے کی ایک تازہ مثال پیش کرتی ہے۔
اسرائیل، ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی انتہائی جدید ٹیکنالوجی، فوجی طاقت اور امریکی حمایت کے بل بوتے پر خود کو مشرق وسطی کی ناقابل تسخیر قوت سمجھتی ہے اور اس نے کئی دہائیوں سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس نے نہ صرف فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی قبضے کیے ہیں بلکہ اقوام عالم کے سامنے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ خطے کے دیگر ممالک کے خلاف بھی جارحانہ پالیسیاں اختیار کیے ہوئے ہے، جس کا مقصد اپنی بالادستی کو قائم کرنا ہے۔ اسرائیلی قیادت کا ہمیشہ سے یہ دعوی رہا ہے کہ ان کا دفاعی نظام اتنا مضبوط ہے کہ کوئی بھی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ اسرائیلی ہمیشہ اپنی فوجی ٹیکنالوجی، جدید ترین ہتھیاروں اور انٹیلی جنس کی برتری پر فخر کرتے ہیں، اور اسی زعم میں مبتلا ہو کر خطے میں جارحانہ اقدامات کے ذریعے فساد پھیلانے کا باعث بنتے رہے ہیں۔
دوسری جانب، اسلامی جمہوریہ ایران، جو مشرق وسطی میں ایک مضبوط اور آزاد حیثیت رکھتا ہے، ہمیشہ سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ڈٹ کر کھڑا رہا ہے۔ ایران نے نہ صرف فلسطینی مزاحمت کی ہمیشہ حمایت کی ہے بلکہ خطے میں دیگر مزاحمتی تحریکوں کو بھی اخلاقی، سیاسی اور عملی مدد فراہم کی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران کو تقریبا پچاس برسوں سے بین الاقوامی دبا اور پابندیوں کا سامنا ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی خودمختاری اور غیرت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایرانی قوم نے ہمیشہ اپنی قومی غیرت کو مقدم رکھا ہے اور اسے اپنی پہچان کا اہم حصہ سمجھا ہے۔
حالیہ جنگ میں، جب اسرائیل نے تمام تر بین الاقوامی قوانین پامال کرتے ہوئے ایرانی سرزمین پر حملہ کیا، تو اس نے دراصل ایرانی غیرت کو للکارا تھا۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جسے ایران کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ اس حملے سے اسرائیل نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی صریحا ورزی کی بلکہ ایران کی خودمختاری اور وقار کو بھی چیلنج کیا۔ ایسے میں، ایرانی قیادت کے پاس دو راستے تھے: یا تو وہ خاموشی اختیار کر کے اپنے وقار کو مجروح ہونے دیتے، یا پھر اپنی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیتے۔ ایرانی قوم نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور اپنی قومی غیرت کا پرچم بلند کیا۔
ایران نے اسرائیل کے حملے کا جواب انتہائی موثر حکمت عملی اور غیرت مندی سے دیا۔ یہ حملہ نہ صرف فوجی اعتبار سے ایک بھرپور جواب تھا بلکہ یہ ایک نفسیاتی جنگ بھی تھی جہاں ایران نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو جھوٹا ثابت کیا۔ ایرانی افواج نے ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جس کی اسرائیل کو توقع نہیں تھی۔ اسرائیل نے ہمیشہ اپنی فضائی برتری اور دفاعی نظام کی مضبوطی پر فخر کیا تھا، لیکن ایرانی حملے نے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی بھی نظام ناقابل تسخیر نہیں ہوتا۔
اس حملے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی، اس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ اسرائیل کا Iron Dome (آئرن ڈوم) دفاعی نظام، جس پراسرائیل کو بہت بھروسہ تھا، ایران کے حملوں کو مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہا۔ اگرچہ کچھ حملوں کو روکا گیا، لیکن یہ حقیقت کہ ایرانی میزائل اور ڈرونز اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے اور تباہی مچانے میں کامیاب ہوئے، اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ یہ نہ صرف فوجی ناکامی تھی بلکہ اس سے اسرائیل کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ عالمی سطح پر، اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا تصور ٹوٹتا نظر آیا، اور یہ ایرانی قوم کی غیرت مندی اور بہادری کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
ایران نے یہ ثابت کر دیا کہ غیرت اور عزم کے سامنے مادی طاقت اور جدید ٹیکنالوجی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ایران کا جوابی حملہ صرف فوجی طاقت کا مظاہرہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک قوم کے اس جذبے کا اظہار تھا کہ وہ اپنی عزت، اپنی سرزمین اور اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ ایرانی قیادت نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنی خودمختاری پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
اس جنگ نے نہ صرف اسرائیل کی فوجی بالادستی کے دعووں کو چیلنج کیا بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی تبدیل کیا۔ اس نے دیگر اقوام کو بھی یہ پیغام دیا کہ اگر کوئی قوم اپنی غیرت پر ڈٹ جائے تو وہ اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو بھی شکست دے سکتی ہے۔ ایرانی قوم نے اپنی غیرت مندی سے یہ ثابت کر دیا کہ اصلی طاقت صرف ہتھیاروں کی تعداد میں نہیں بلکہ ایک قوم کے اندر موجود غیرت، عزم اور اپنے مقصد کے لیے قربانی کے جذبے میں پنہاں ہے۔
اس واقعے سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جب کوئی قوم اپنی غیرت کو زندہ رکھتی ہے تو وہ اپنی آزادی اور وقار کا تحفظ کر سکتی ہے۔ غیرت صرف ایک جذباتی کیفیت نہیں بلکہ یہ ایک عملی قوت ہے جو قوموں کو متحد کرتی ہے، انہیں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ہمت دیتی ہے، اور انہیں مشکل ترین حالات میں بھی ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ایرانی قوم نے اسرائیل کے خلاف اپنی غیرت کا مظاہرہ کر کے نہ صرف اپنی ساکھ کو بلند کیا بلکہ علامہ اقبال کی زبان میں دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ “غیرت ہے بڑی چیز اس جہان تگ و دو میں” اور یہی وہ جوہر ہے جو کسی بھی قوم کو فنا ہونے سے بچا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا دعوی ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہو گیا، اور ایرانی قوم نے اپنی غیرت اور بہادری سے دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
تحریر : عبدالجبار ترین
