جی ہاں، پاکستان میں بھی آج دیہی خواتین کا عالمی دن منا یا جا رہا ہے، یہ عالمی دن آج آیا ہے اور پھر ہر گزرے دن کی طرح رخصت بھی ہو جائے گا، یہ دن چلا جائے گا۔ ۔ ۔ پسماندہ خواتین کو ایک آس دلوا کر، اُن کی آنکھوں میں خواب سجا کر، امیدوں کے نہ بجھنے والے دیے جلا کر، یہ رخصت ہوجائے گا!!
پا کستان کے شہری علاقوں میں بسنے والی پسماندہ خواتین متعدد مسائل کا شکار تو نظر آتی ہی ہیں، دیہی علاقوں میں موجود عورتوں کی تعداد اُن سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے رورل ایریاز میں موجود عورتیں رول ماڈل ہیں، عزم و ہمت، برداشت، حوصلے اور صبر کا مجسم پیکر ہیں۔ دیہی علاقوں میں موجود زیادہ تر خواتین کھیتی، باڑی اور سینے، پرونے کے کام سے وابستہ رہتی ہیں، پسماندہ طبقات میں شامل یہ عورتیں مردوں کے مقابلے کہیں زیادہ کام کرتی نظر آتی ہیں، بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں، اور گھر، گرہستی کو بھی!! دوسری جانب د یہی علاقوں میں موجود مرد وں کی اکثریت بے روزگاری کا شکار نظر آتی ہے،یا پھر اُن میں بہت سے شاید خود ہی کام، کاج کرنا نہیں چاہتے، ہمہ وقت ہوٹلوں میں بیٹھے چا ئے، سگریٹ اور گٹکا وغیرہ کھانے او ر گلی، کوچوں اور چوراہوں پر ہر وقت کی گپ،شپ لگا نے میں مصروف نظر آتے ہیں، یہ بہر حال انکا اپنافعل ہے جس پر انہیں صرف سمجھایا ہی جاسکتا ہے، یہ احساس دلایا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشی اور معاشرتی نظام میں ہر فرد اپنے اوپر عائد ذمے داریوں کو بہ احسن وخوبی ادا کرتا ہوا ہی اچھا لگتا ہے، صرف عورتیں ہی محنت، مشقت کریں، گھر سنبھالیں، بچوں کی پرورش کریں اور پھر تشدد کو بھی برداشت کریں تو یہ تو سراسر ناانصافی ہوگی۔
حق اور انصاف سے متعلق بات کو آگے بڑھا یا جائے تو معلوم ہوگا کہ پسماندہ علاقوں میں بسنے والی خواتین شروع ہی سے حقوق کی فراہمی کے معاملے میں بڑی بدقسمت ثابت ہوئی ہیں، یہ بدقسمتی ہی تو ہے کہ اسکول جانے کی عمر میں غریب و لاچار بچیاں بنگلوں اور کوٹھیوں پر جھاڑو، پونچھا لگا رہی ہوتی ہیں، ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں،فرسودہ سوچ کے حامل گھرانوں میں بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت حاصل رہتی ہے، نہ لڑکیاں اچھا کھا، پی پاتی ہیں نہ انہیں بہتر ماحول میسر آتا ہے، بچیوں کو یا تو تعلیم دلوائی ہی نہیں جاتی یا پھر چار،چھ کلاسیں پڑھوا کر چھوٹے پن میں ہی اُنکی شادیاں کر دی جاتی ہیں، ہمارے یہاں دیہی علاقوں میں موجود کم عمر بچیوں کی زبردستی شادیاں کروائے جانے کے واقعات عام ہیں، سندھ میں تو قانون سازی کے باوجود دھڑلے سے یہ کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، پنجاب میں بھی کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اللہ کرے کہ ، کے پی کے اور بلوچستان میں اسقدر خراب صورتحال نہ ہو۔ ۔ ۔ تو بہرحال، اب ان شادیوں میں چُھپی ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ کم عمر بچیاں اپنی شادیوں کے کچھ سالوں بعد ہی اللہ میاں کو پیاری ہو جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ کیسے؟؟ ارے بھائی ایک کم عمر ماں کے ہاں ہر سال بچے کی پیدائش ، جسم میں خون کی کمی، صحت مند غذاؤں کا فقدان، غربت، بے چارگی، معاشرتی ناانصافیاں، علاج معالجے کی سہولیات کا نہ ہونا ۔ ۔ ۔ اس تمام صورتحال میں کوئی بھلا کیسے بچ پائے گا!!
پاکستان کے دیہی علاقوں میں آنے والے سیلاب، اوران علاقوں میں خشک سالی اور قحط زدگی پر بات کی جائے تو پتہ چلے گا کہ ان حالات اور ماحول کا سامنا کرتے ہوئے ہزاروں خواتین مر جاتی ہیں، پچھلے سال سیلاب سے متاثرہ عورتوں کو کسی قسم کا تحفظ ملتا نظر نہیں آیا، اب بھی کئی ہزار عورتیں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اخراج کا منتظر آلودہ ترین سیلابی پانی زمینوں کو ” بنجر” کر دینے کے قریب ہے، اگر زمینیں بنجر ہو گئیں تو پھر ان پر کھیتی، باڑی کرنے والی خواتین کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔
دوسری جانب آج بھی دیہی خواتین کو واٹر، سینی ٹیشن اور ہائجین کے زمرے میں آنے والے تمام تر معا ملات کا سامنا ہے، بھوک اور بیماریوں نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، کتنے بچے بھوک کی شدت اور بیماری کے کرب کو برداشت نہ کر سکے اور دم توڑ گئے، حاملہ خواتین کو صحت سے متعلق شدید خطرات لاحق ہیں، عورتیں سیلاب، خشک سالی اور قحط زدہ علاقوں سے نقل مکانی بھی نہیں کر سکتیں کیونکہ فرسودہ رسم و رواج اور حاکمانہ اور ظالمانہ سوچ اور طرز عمل اُن کے پاؤں کی بیڑیاں بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہاں بات صرف سیلاب متاثرہ خواتین کی نہیں، عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جانا، ان پر تیزاب پھینکنا، ہاتھ پاؤں توڑ کر معذور اور مفلوج کر دیا جانا، ان پر جنسی اور صنفی تشدد کا ہونا پورے معاشرے میں عام سی بات بنتی جارہی ہے۔ ۔ ۔ دیا بھیل اور رانی پور کی معصوم بچی کا واقعہ آج بھی دل دہلا دیتا ہے!!
بہر حال، یہ سب باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی، لیکن اب سوچنا یہ ہے کہ خواتین کی بہتری کے لیے عملی طور پر کیاہونا چاہیے؟ قدرتی آفات کا شکار خواتین کی بات کی جائے تو سب سے پہلے تو اچھی اور معیاری غذا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فوری طور پر اُنہیں صحت کی سہولتیں بھی فراہم ہو نی چاہیئں تاکہ پسماندہ خواتین کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکے، خواتین کو لائف سیونگ اسکلز پر تربیت دینا بھی ضروری سمجھا جائے تو کسی بھی آفت اور ایمرجنسی جیسی صورتحال میں وہ سب سے پہلے اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو جائیں گی،اور پھر آگے اور بھی کام ہوتے رہیں۔ جان ومال، عزت و حرمت کا تحفظ ناگزیر ہے، اسی طرح سے حکومتی سطح پر بہت بڑے پیمانے پر ایسے ٹھوس اقدمات عمل میں لائے جانے کی فوری ضرورت ہے کہ جن سے ہمارے معاشرے میں موجو د نہ صرف دیہی بلکہ پسماندگی کا شکار شہری اور افغان مہاجر خواتین کو بھی اُنکے تمام تر حقوق با آسانی فراہم ہو سکیں۔
تحریر:
کاشف شمیم صدیقی
Leave feedback about this