تازہ ترین جرائم

اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد: یہ جیل کم حراستی مرکز زیاہ لگتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ

اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد: یہ جیل کم حراستی مرکز زیاہ لگتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل، جیل کم اور حراستی مرکز زیادہ لگتا ہے، اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد کے واقعات کے معاملے پر مقدمے کی سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کی، جس کے دوران سیکرٹری انسانی حقوق عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل میں شکایت سیل قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے تبصرہ کیا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے حراست کے دوران تشدد پر رپورٹ دی، رپورٹ دیکھنے کے بعد یہ جیل کم حراستی مرکز زیادہ لگتا ہے۔

ان کا کہنا تھا قانون کے مطابق سرکاری ملازمین کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہو سکتی ہے، سیکرٹری صاحب! وفاقی حکومت کو اس پر عمل کرنا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اس سے قیدی جیلوں میں بے بس ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ نے یہ رپورٹ خفیہ کیوں رکھی ہے؟ ہم اس رپورٹ کو سامنے لا رہے ہیں، آپ اسے ویب سائٹ پر بھی لگائیں، سیکرٹری انسانی حقوق نے بتایا کہ اڈیالہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے تبصرہ کیا کہ یہ تو ازخود ایک اذیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے،حراستی تشدد جاری ہے، جیلوں میں قیدیوں کی تضحیک کی جاتی ہے، یہ جیل نہیں، حراستی کیمپ ہیں، انہی حالات کی وجہ سے جیل کا دورہ کرنا پڑا۔

دوران سماعت عدالت عالیہ نے پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کو روسٹرم پر طلب کر لیا، چیف جسٹس نے اسد عمر سے مخالطب ہو کر کہا کہ آپ کی پنجاب  میں حکومت میں ہے ہم نے جیلوں سے متعلق فیصلہ دیا ہے اس پر عمل کرائیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا یہ انتظامیہ کے کام ہیں، بے بس لوگوں کی آواز کوئی نہیں اٹھاتا، عدلیہ کا 130 واں نمبر کہا جاتا ہے، وہ نمبر دراصل قانون کی حکمرانی کا ہے، نظام ٹھیک کرنا عدلیہ نہیں، انتظامیہ کا کام ہے، یہ رپورٹ دراصل ‘ٹپ آف دا آئس برگ’ ہے۔

Leave feedback about this

  • Quality
  • Price
  • Service

PROS

+
Add Field

CONS

+
Add Field
Choose Image