ابراہام معاہدے کے خفیہ مقاصد!!! اردو بلاگ موسم Roze News
اردو بلاگ

ابراہام معاہدے کے خفیہ مقاصد!!!

ابراہام معاہدے کے خفیہ مقاصد!!!

ستمبر 2020 میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے درمیان طے پانے والا “ابراہام معاہدہ” (بعد میں جس میں بحرین، مراکش اور سوڈان بھی شامل ہو گئے) بظاہر مشرق وسطیٰ میں امن، ترقی اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا، تاہم اس معاہدے کے پسِ پردہ کئی ایسے خفیہ مقاصد کارفرما تھے جن کا تعلق علاقائی طاقت کے توازن کو امریکہ اور اسرائیل کے حق میں تبدیل کرنے اور امریکہ و اسرائیل کے جغرافیائی، سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور تزویراتی مفادات سے ہے۔ آئیے ان اہداف کا ایک جائزہ لیتے ہیں:
1۔ مشرق وسطی میں امریکی مفادات کا تحفظ:
امریکہ خطے میں اپنی براہ راست عسکری موجودگی کم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے یہ معاہدہ اس کی مشرق وسطیٰ پالیسی کو مضبوط کرنے اور ایران، چین اور روس جیسے حریفوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ابراہام معاہدہ دراصل اس خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کا ہی ایک تسلسل ہے جس کے ذریعے وہ اسرائیل اور عرب ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا کر خود پس پردہ رہ کر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
۔2. خطے میں جغرافیائی سیاسی ڈھانچے کی تشکیل نو:
ابراہام معاہدہ خطے میں ایک نئے جغرافیائی سیاسی ڈھانچے کی بنیاد رکھتا ہے، جس میں اسرائیل کو ایک مرکزی کردار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد ایک “نئے مشرق وسطیٰ” کی تشکیل ہے، جہاں عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر مجبور کیا جائے۔ اس حکمت عملی کے تحت، اسرائیل اور امریکہ خطے میں اپنی بالادستی کو مستحکم کرنے کے لیے عرب ممالک کو اپنے اتحادی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
3۔ ایران کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا:
ابراہام معاہدے کا ایک اور انتہائی اہم مقصد ایران کو خطے میں تنہا کرنا اور اس کے بڑھتے ہوئے عسکری و نظریاتی اثرات کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسرائیل، سعودی عرب، یو اے ای اور بحرین سبھی ایران کہ انقلابی نظریات اور اس کی جوہری سرگرمیوں کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے یہ معاہدہ ایران کے خلاف ایک غیر اعلانیہ اتحاد ہے جو بظاہر امن کا پیغام دیتا ہے مگر حقیقت میں ایک نیا عسکری توازن قائم کرتا ہے۔
4۔ جدید اسرائیلی ٹیکنالوجی کے ذریعے علاقائی بالادستی:
متحدہ عرب امارات نے اس معاہدے کے بعد اسرائیل کی سائبر سیکیورٹی، ڈرون، انٹیلی جنس، مصنوعی ذہانت اور دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کی ہے۔ یو اے ای نے اسرائیل سے Pegasus جیسے جاسوسی سافٹ ویئر اور دیگر نگرانی کے نظام خریدے ہیں۔ اسرائیل نے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے متحدہ عرب امارات اور مشرق وسطی کے ممالک کے تمام دفاعی، اقتصادی، سیاسی، مواصلاتی اور سماجی اداروں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
5۔ امریکی اسلحے کی فروخت بڑھانا:
اس معاہدے کے بعد امریکہ نے یو اے ای کو F-35 اسٹیلتھ طیارے اور دیگر جدید اسلحہ فروخت کرنے کی اجازت دی ہے۔
6۔ عربوں پر اسرائیل کا دفاعی، اقتصادی، مواصلاتی اور تجارتی کنٹرول:
ابراہام معاہدے نے اسرائیل کو پہلی بار خلیجی ریاستوں کی منڈیوں تک براہ راست رسائی دی ہے۔ اسرائیلی کمپنیاں اب یو اے ای میں زرعی ٹیکنالوجی، فِن ٹیک، سیاحت، تعلیم، آئی ٹی، مواصلات اور دفاع کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ یہ اسرائیل کے لیے نہ صرف معاشی طور پر فائدہ مند ہے بلکہ عرب دنیا کہ دفاعی اور اقتصادی نظام پر نرم طاقت (soft power) کے ذریعے کنٹرول کا ایک موثر طریقہ بھی ہے۔
7۔ فلسطینی موقف اور جدو جہد کو کمزور کرنا:
یہ معاہدہ عرب لیگ کی 2002 کی عرب امن پالیسی کی خلاف ورزی ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات صرف اس وقت قائم ہوں گے جب وہ فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرے۔ لیکن یو اے ای، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اس معاہدے اور فلسطین کو نظرانداز کر کے اسرائیل سے تعلقات قائم کیے، جس سے فلسطینی جدوجہد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ کم ہو چکا ہے۔
8. فلسطینیوں کی بیدخلی اور غزہ کا کنٹرول:
ایک مقصد عربوں کی حمایت سے فلسطینیوں کو غزہ سے ہٹا کر مصر یا اردن میں دوبارہ آباد کرنا ہے۔ یہ اسرائیل کے ان مقاصد میں ہے جو وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہ کر سکا۔
9۔ سیاسی اسلامی پارٹیوں اور اخوان المسلمون کا مقابلہ:
یو اے ای اور اسرائیل دونوں سیاسی اسلام اور خاص طور پر اخوان المسلمون جیسی عوامی مقبولیت رکھنے والی پارٹیوں سے سخت خوف زدہ ہیں، کیونکہ انہیں وہ اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ معاہدہ ایسے اسلامی نظریات کو محدود کرنے کی بھی ایک کوشش ہے جو عوامی بیداری اور مزاحمت کی علامت ہیں۔
10۔ عرب عوام میں اسرائیل کو قابل قبول بنانا:
ابراہام معاہدہ اسرائیل کو عرب دنیا میں قابل قبول حیثیت دینے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اسرائیلی پاسپورٹ کو اب یو اے ای، بحرین، مراکش اور سوڈان میں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس سے اسرائیل کی علاقائی تنہائی ختم ہو رہی ہےاور اسرائیلیوں کی موجودگی لوگوں کے لیے ایک معمول بن چکی ہے۔
11۔ اسرائیلی جاسوسی نیٹ ورک کا پھیلاؤ؛
متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد، اسرائیلی سفارت خانے اور دیگر دفاعی، اقتصادی، مواصلاتی اور تجارتی دفاتر کی آڑ میں اپنا وسیع نیٹ ورک بنائے گی اور آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گی۔ مسلم ممالک عام طور پر اس کا پسندیدہ ہدف ہوں گے۔ مگر خاص طور پر پاکستان اور ایران کے خلاف جاسوسی اور تخریبی سرگرمیاں یہاں سے بہت آسان ہو جائیں گی۔ دوبئی سے اسرائیلی ایجنسی موساد اور ہندوستانی ایجنسی را (R& AW) کا مشترکہ نیٹ ورک پاکستان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بلوچستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری نیٹ ورک کو مالی اور افرادی قوت مہیا کرنا دوبئی سے بہت آسان ہے۔
12۔ چین کے بڑھتے اثرات کو روکنا:
امریکہ اور اسرائیل یہ چاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک چین کے ساتھ تجارتی، دفاعی یا تکنیکی معاہدے نہ کریں۔ ابراہام معاہدے کے ذریعے امریکہ اپنے اتحادیوں کو چینی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور خاص طور پر 5G، بندرگاہوں اور فوجی
انفراسٹرکچر کے شعبوں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہا ہے
13۔ روسی اثر و رسوخ کو روکنا:
روس شام اور ایران کا بہت پرانا اتحادی ہے اب روس دیگر عرب ملک میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا تھا اس معاہدے کے بعد روس کے لیے کافی مشکلات پیدا ہوں گے کیونکہ اب عرب ممالک زیادہ تر امریکہ اور اسرائیل کی طرف مائل ہو جائیں گے
حرف آخر:
ابراہام معاہدہ بظاہر ایک امن معاہدہ ہے لیکن اس کے باطن میں طاقت، کنٹرول، مفادات اور سیاسی عزائم کا ایک پیچیدہ جال پوشیدہ ہے جہاں فلسطینی عوام کو یکسر نظرانداز کیا گیا وہیں اسرائیل کو تاریخی کامیابی ملی۔ اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کی سیاست کو اپنے مفادات کے تحت نئے سرے سے ترتیب دیا ہے۔ یہ معاہدہ دراصل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں کوئی چیز غیر مشروط نہیں ہوتی۔ ہر امن معاہدے کے پیچھے طاقت، خوف اور مفادات کی کہانی چھپی ہوتی ہے اور ابراہام معاہدہ اس کی بہترین مثال ہے۔

تحریر:عبدالجبار ترین

ابراہام معاہدے کے خفیہ مقاصد!!!

Exit mobile version