پاکستان

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ایمپلائز ایسوسی ایشن کی تاریخی حلف برداری ،خدمت، قیادت اور ترقی کا نیا سفر

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ایمپلائز ایسوسی ایشن کی تاریخی حلف برداری ،خدمت، قیادت اور ترقی کا نیا سفر

ہر ادارے کی ترقی کا انحصار صرف اس کی پالیسیوں یا انفراسٹرکچر پر نہیں ہوتا بلکہ اصل قوت اس کے افراد میں مضمر ہوتی ہے۔ افرادِ کار کی لگن، قیادت کا اخلاص اور اجتماعی بصیرت وہ ستون ہیں جن پر کامیاب ادارے اپنی عظمت کی عمارت تعمیر کرتے ہیں۔ اسی حقیقت کا عملی مظاہرہ 28 اپریل 2025 کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداران نے ایک روح پرور اور شاندار تقریب میں حلف اٹھایا۔ یہ تقریب ادارے میں قیادت، خدمت اور اجتماعی فلاح کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوئی۔
ایک یادگار دن کا آغاز: سجاوٹ، خوشبو اور نظم
یونیورسٹی کے وائس چانسلر سیکرٹریٹ کے سامنے واقع خوبصورت لان کواس تقریب کے لیے خوابناک منظر میں تبدیل کیا گیا تھا۔ اس مقام پر رنگ برنگے ٹینٹس نے ایک دلکش ماحول پیدا کر دیا تھا جب کہ تازہ پھولوں کی خوشبو فضا میں بکھری ہوئی تھی۔ کرسیاں سلیقے سے ترتیب دی گئی تھیں اور ہر طرف مدھم موسیقی کی آواز سنائی دے رہی تھی جو اس دن کی خاصیت کو مزید اجاگر کر رہی تھی۔ روشن قمقمے فضا میں ایک جادوئی اثر پیدا کر رہے تھے اور ہر چیز گویا اس بات کا اعلان کر رہی تھی کہ آج کا دن دیگر معمولی دنوں سے کہیں زیادہ خاص ہے۔تقریب کے انتظامات میں اسٹیٹ آفس کے محمد ایاس نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ تقریب کے آغاز سے لے کر اختتام تک پنڈال میں مسلسل متحرک رہے، ہر مرحلے کی نگرانی اور کامیاب تکمیل میں اپنی محنت و لگن سے حصہ ڈالا۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے تقریب کے دوران ہر جانب سے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے چوکسی سے کام لیا اور تقریب کے اطراف میں مسلسل پہرہ دے رہے تھے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔آئی ای ٹی کے کیمرہ مین اور ویڈیو ٹیم نے اس دن کی اہمیت کو بخوبی سمجھا اور تقریب کی ہر ایک لمحے کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی طرح ڈائریکٹورٹ آف پبلک ریلیشنز کے فوٹوگرافر، نورالاسلام نے اپنے کیمرے کی مدد سے تقریب کی تمام اہم یادوں کو محفوظ کیا اور تقریب کے آغاز سے لے کر اختتام تک مسلسل مصروف نظر آئے۔اس خوبصورت اور ترتیب سے منعقد کی گئی تقریب میں تمام محکموں کی بھرپور تعاون اور محنت نے اس دن کو یادگار بنا دیا اور اس کے اثرات طویل عرصے تک برقرار رہنے کے لیے گواہ ہیں۔
قیادت کا خواب: حلف اور امیدوں کا سفر
تقریب کا باضابطہ آغاز قرآنِ پاک کی تلاوت، نعتِ رسول مقبول ۖ اور قومی ترانے سے ہوا، جس نے فضا کو عقیدت، محبت اور حب الوطنی کے جذبات سے بھر دیا۔ بعدازاں نومنتخب جنرل سیکرٹری رانا امجد نے شاندار نظامت کے فرائض انجام دیے۔
پھر وہ لمحہ آیا جب وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے نومنتخب عہدیداران سے حلف لیا۔ صدر شیر آصف ستی، سینئر نائب صدر اجمل شاہ، نائب صدر فیصل منیر، جنرل سیکرٹری رانا امجد، اور دیگر عہدیداران نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کے مقدس عہد کی تجدید کی۔ ہر ہاتھ بلند تھا، ہر آنکھ میں عزم کی چمک اور ہر دل میں خدمت کے جذبے کی حرارت تھی۔
ولولہ انگیز خطابات: جذبوں کو زبان ملی
جنرل سیکرٹری رانا امجد نے اپنے خطاب میں الیکشن کمیشن، وائس چانسلر اور تمام ملازمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے آئندہ اہداف بیان کیے۔ ان کی گفتگو میں مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کے حل کی واضح حکمت عملی بھی جھلکتی رہی۔صدر شیر آصف ستی نے اپنے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ کارکردگی کے معاملے میں کسی قسم کی غفلت یا سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر ہر روز صبح سات بجے دفتر پہنچ کر اپنے فرائض منصبی کو انتھک محنت، دیانت اور پیشہ ورانہ ذمہ داری کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور شام سات بجے تک اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے بعد دفتر سے رخصت ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک اولین ترجیح اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی ہے جبکہ ایسوسی ایشن کی سرگرمیاں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔صدر شیر آصف ستی نے تمام ملازمین پر زور دیا کہ وہ اپنی سرکاری ذمہ داریوں میں کامل دیانت داری، لگن اور احساسِ فرض کے ساتھ کام کریں اور اپنی پیشہ ورانہ ساکھ کو بہتر بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ایسوسی ایشن، ملازمین کے جائز مسائل اور مطالبات کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرے گی اور ان کے حقوق کا دفاع پوری قوت اور عزم کے ساتھ کیا جائے گا۔ ان کے لہجے میں اعتماد کی گونج اور ارادوں میں استقامت کی روشنی نمایاں تھی۔
قائدانہ بصیرت: وائس چانسلر کا امید افزا پیغام
پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے اپنے خطاب میں کہا کہ ادارے کی ترقی میں ہر فرد کا کردار اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیانت دار، محنتی ملازمین کے حقوق کا تحفظ ادارہ یقینی بنائے گا اور ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی (DPC) کا اجلاس مئی میں طلب کر کے ترقیوں کے عمل کو مزید تیز کیا جائے گا۔ان کے الفاظ میں جہاں رہنمائی تھی، وہیں خود احتسابی کی دعوت بھی۔ڈاکٹر ناصر محمود نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے ادارے میں ایسا مثبت اور متحرک کلچر فروغ دینا ہوگا جہاں محنتی اور ذمہ دار ملازمین کو ان کی کارکردگی کے مطابق عزت و توقیر دی جائے جبکہ کام میں سستی یا لاپرواہی برتنے والوں کے لئے الگ حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم محنت کرنے والوں اور کام نہ کرنے والوں کو ایک ہی معیار اور رویے کے تحت پرکھیں۔ ادارے کی ترقی انہی افراد کی مرہون منت ہے جو خلوصِ نیت، جانفشانی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ایسے محنتی ملازمین کو سراہا جائے، ان کی کارکردگی کو اجاگر کیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ مزید جذبے، وفاداری اور لگن کے ساتھ ادارے کی بہتری اور ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ اس طرح نہ صرف ادارے کی مجموعی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ ایک مثبت مسابقتی ماحول بھی پیدا ہوگا جو تمام ملازمین کو مزید محنت پر ابھارے گا۔ڈاکٹر ناصر محمود کی باتوں سے یہ احساس جاگا کہ یہ قیادت محض رسمی نہیں بلکہ عملی تبدیلی کی داعی ہے۔

تقریب کی کامیابی میں انتظامیہ کا کردار

کسی بھی تقریب کی کامیابی محض اس کی خوبصورتی، سجاوٹ یا مہمانوں کی موجودگی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم، متحرک اور ہنر مند انتظامیہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ یہی انتظامیہ اسٹیج کے پیچھے وہ خاموش سپاہی ہوتی ہے جو پوری محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ تقریب کی ہر جہت کو سنوارنے میں جتی رہتی ہے۔اگر ہم بات کریں یونیورسٹی کی تقریبات کی، تو یہاں ایک نام بار بار جگمگاتا ہے۔رجسٹرار، راجہ عمر یونس۔ وہ صرف ایک منتظم نہیں بلکہ تقریبات کے روحِ رواں ہیں۔ ہر تقریب میں ان کی موجودگی ایک نئی توانائی، نیا نظم اور بے مثال ہم آہنگی لاتی ہے۔ چاہے وہ کوئی تعلیمی تقریب ہو، ثقافتی میلہ ہو یا ایمپلائز ایسوسی ایشن کی تقریب، رجسٹرار صاحب کی فعالیت، توجہ اور پیشہ ورانہ انداز ہر کسی کو متاثر کرتا ہے۔28اپریل، 2025 کو منعقدہ ایمپلائز ایسوسی ایشن کی تقریب اس کی واضح مثال ہے۔ سٹیج کی تزئین سے لے کر مہمانوں کے استقبال، نشست و برخاست کے نظم اور پورے ماحول کی ہم آہنگی میں جو نفاست اور سلیقہ نظر آیا وہ بلاشبہ راجہ عمر یونس کی قیادت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ وہ نہ صرف خود پیش پیش ہوتے ہیں بلکہ اپنی ٹیم کو بھی متحرک اور ہم آہنگ رکھتے ہیں، جس کی بدولت ہر پہلو میں نفاست اور پیشہ ورانہ معیار نمایاں ہوتا ہے۔حلف برداری کی تقریب میں بھی وہ حسبِ روایت وقت پر پہنچے، اپنی موجودگی سے تقریب کو جِلا بخشی اور ہر انتظام کی نگرانی نہایت باریک بینی سے کی۔ ان کی قیادت میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی ذمہ داری خوش دلی اور جذبے سے نبھاتا ہے۔میری نظر میں یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی تمام تقریبات کی کامیابی کا سب سے بڑا کریڈٹ اگر کسی کو دیا جا سکتا ہے تو وہ ہیں راجہ عمر یونس۔ ان کی انتھک محنت، بے مثال انتظامی صلاحیتیں اور پرخلوص قیادت وہ عناصر ہیں جو ہر تقریب کو ایک یادگار اور قابلِ تقلید مثال بناتے ہیں۔
جذبات، اعتراف اور محبت کی شب
تقریب کے دوران 40 ریٹائر ہونے والے ملازمین کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں جو ان کی برسوں کی خدمات کا بھرپور اعتراف تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ، دورانِ ملازمت وفات پا جانے والے مرحومین کے ورثا کو بھی عزت و احترام کے ساتھ اعزازات دیے گئے۔ یہ ایک نہایت جذباتی لمحہ تھا جب حاضرین کی آنکھوں میں عقیدت کے آنسو چمک اٹھے۔ایسوسی ایشن کے فنانس سیکرٹری محمد ایاس نے مائیک سنبھالا اور ریٹائرڈ ملازمین کو فردا فردا اسٹیج پر مدعو کیا۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود اور رجسٹرار راجہ عمر یونس نے ریٹائرڈ ملازمین کو اعزاز کے طور پر یادگاری شیلڈز پیش کیں۔ تقریب کا ماحول نہایت پروقار، گرمجوشی اور خلوص سے بھرپور تھا جہاں حاضرین نے ریٹائرڈ ساتھیوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
خوش ذائقہ اختتام: خوشبو اور ذائقے کی ہم آہنگی
تقریب کے اختتام پر ایک پرتکلف اور دلکش ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا، جو شرکا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔پنڈال میں گول میزیں قرینے سے آراستہ تھیں، ہر میز پر سفید اور سنہری رنگ کی خوشنما میز پوشیاں بچھی ہوئی تھیں۔ نفیس اور روایتی بیف قورمہ، جس میں مصالحوں کی خوشبو اور گوشت کی نرمی ایک دلکش امتزاج پیش کر رہی تھی، خاص طور پر مہمانوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ اس کے ساتھ گرم گرم، خستہ اور خوشبودار روغنی نان پیش کیے گئے جو قورمے کے ذائقے کو مزید دوبالا کر رہے تھے۔میٹھے چاولوں کی خوشبو بھی ماحول میں گھل گئی تھی جن میں الائچی کی مہک اور بادام و کشمش کی مٹھاس ہر نوالے کو ایک خوشگوار تجربہ بنا رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی مشروبات کولڈ ڈرنکس نے گرمی کی شدت کو خوشگوار ٹھنڈک میں بدل دیا۔ہم نے نہ صرف کھانوں کے ذائقے سے لطف اٹھایا بلکہ ایک دوسرے کی خوشگوار باتوں، قہقہوں اور خوش مزاجی سے بھی محفل کو یادگار بنا دیا۔ ہر طرف ایک محبت بھرا اور پرجوش ماحول تھا جہاں ہر چہرہ مسکراتا نظر آ رہا تھا۔ خوش ذائقہ کھانوں کے ساتھ چلنے والی خوشگوار گفتگوں، پرانی یادوں کے تذکروں اور مستقبل کے خوابوں نے اس تقریب کو صرف ایک رسمی اجتماع نہیں بلکہ ایک لازوال یاد میں تبدیل کر دیا۔ یوں یہ پرتکلف ظہرانہ نہ صرف شرکا کے ذائقے کی تسکین کا ذریعہ بنا بلکہ دلوں کو قریب لانے اور محبتوں کو پروان چڑھانے کا خوبصورت وسیلہ بھی ثابت ہوا۔
روشنی کی طرف سفر
یہ تقریب محض ایک رسمی حلف برداری نہیں تھی، یہ امیدوں کے دیے روشن کرنے کا ایک سفر تھا۔ یہ اس عہد کی تجدید تھی کہ قیادت ایک مقدس امانت ہے، جو خلوص، قربانی اور دیانت کی متقاضی ہے۔ اگر یہ جذبہ قائم رہا تو وہ دن دور نہیں جب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک علمی مینار کی حیثیت اختیار کر لے گی۔
علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر کے لیے ہمیں اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ کہ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ”۔

تحریر: عزیز الرحمن

 

Leave feedback about this

  • Quality
  • Price
  • Service

PROS

+
Add Field

CONS

+
Add Field
Choose Image