آج ہمارے معاشرے میں رسم و رواج کی غیر ضروری رسومات خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں، خاص طور پر خواتین کے درمیان۔ جہاں اسلام سادگی اور اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، وہاں ہم نے فضول رسومات کو اپنی شناخت بنا لیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف خواتین پیش پیش ہیں بلکہ مرد حضرات بھی ان کی بھرپور پشت پناہی کرتے نظر آتے ہیں۔
مرد حضرات اپنی استطاعت سے بڑھ کر قرضے لے کر بیویوں کی خواہشات پوری کرتے ہیں، مگر پھر بھی انہیں ہر چیز ناکافی محسوس ہوتی ہے۔ ہماری مسابقت کا رخ غلط سمت میں ہے- جہاں ہمیں نیکیوں، عبادات اور والدین کی خدمت میں آگے بڑھنا چاہیے تھا، وہاں دنیاوی اشیا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک خاتون اگر ایک لاکھ روپے خرچ کرتی ہے تو دوسری اس سے آگے نکلنے کے لیے سوا لاکھ خرچ کرتی ہے۔ نوجوانوں میں مہنگے موبائل فونز اور الیکٹرانک سامان کا جنون ہے تو خواتین ڈیزائنر سوٹ، زیورات اور ہینڈ بیگز کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔
اس ناسور نے ہمارے معاشرے کو اس حد تک جکڑ لیا ہے کہ مرد حضرات خاموش تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، مگر زبان کھولنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ “چادر دیکھ کر پاں پھیلا” کا سنہری اصول بھلا دیا گیا ہے۔ ہر کوئی دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ گھریلو تنازعات اور مالی دبا میں خطرناک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات، خاندانی نظام کے تیزی سے زوال پذیری، اور نوجوان نسل کا شادی کے بوجھ تلے سسکنا – یہ سب رسم و رواج کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ آج کا نوجوان یا تو شادی کے بے پناہ اخراجات کے باعث ازدواجی زندگی سے کلیتا گریز کر رہا ہے، یا پھر کوٹ میرج جیسے غیر روایتی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر دوسرا گھر ایسے تنہا افراد کا مسکن بن چکا ہے جو بھاری بھرکم شادی کے اخراجات کی وجہ سے نبی پاک ۖ کی اس سنت مبارکہ سے محروم ہو چکے ہیں جو ہمارے دین کا ایک اہم فریضہ ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ہماری سماجی بربادی کی علامت ہے، بلکہ ہمارے رسم و رواج کے نظام کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی۔
ہمیں فوری طور پر اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرنا ہوگا، شادیوں کو سادہ اور اسلامی اصولوں کے مطابق منانا ہوگا اور علما کرام کو منبروں سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالنی ہوگی۔
آئیں، مل کر اپنے معاشرے کو اس ناسور سے نجات دلائیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک پرامن معاشرہ تعمیر کرنا ہے، جہاں خوشیاں مہنگی نہیں بلکہ حقیقی ہوں۔
تحریر: ناصر اقبال کریمی
Leave feedback about this