پاکستان

لمحہ فکریہ

انسانی زندگی

کبھی کبھی انسان زندگی کے اس موڑ پر آ جاتا ہے جہاں جینے کی خواہش ہی ختم ہو جاتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو انسان کو اس انتہائی نازک موڑ پر لا کھڑا کرتی ہیں؟ وہ کون سے حالات ہیں جو اسے زندگی سے بیزار کر دیتے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال: کیا ہم میں سے کسی نے اپنے گھر کے کسی فرد (ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بیٹے یا بیٹی) سے یہ پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ آج تمہارا دن کیسا گزرا؟ تم کس کیفیت میں رہے؟ تم نے یہ ایک دن کیسے گزارا؟ اور تم نے کن لوگوں کے درمیان وقت گزارا؟
ہم اکثر اپنے جوان بچوں، بہنوں یا بھائیوں کو “آزادانہ زندگی گزارنے” کے نام پر اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ ان کے خیالات پر نظر رکھتے ہیں، نہ ان کی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کس ماحول میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ غلط لوگوں کی صحبت میں ہوں اور آہستہ آہستہ نیکی سے دور ہوتے جا رہے ہوں، مگر ہمیں اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔ کیا ہم (گھر کے سربراہوں) کا یہ فرض نہیں بنتا کہ اپنے گھر کے ہر فرد کی زندگی پر نظر رکھیں؟ کیا ہمیں ان کے اسکول، کالج، دوستوں اور روزمرہ کے معمولات کے بارے میں معلومات نہیں رکھنی چاہئیں؟
آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ موبائل فون ہے، جو ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ میں موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے موبائل کے بغیر انسان کے خون میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہو۔ کیا ہم نے کبھی اپنی بیٹیوں، بہنوں یا بیٹوں کے موبائل استعمال پر نظر ڈالی ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ وہ کس سے بات کر رہے ہیں، کیا دیکھ رہے ہیں، یا کس چیز میں مشغول ہیں؟ ہم اکثر یہ کہہ کر خود کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہوشیار ہے، اسے اچھے برے کی تمیز ہے، مگر کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا ہم نے کبھی انہیں معاشرے کی برائیوں سے آگاہ کیا ہے؟
ہم “براڈ مائنڈڈ” ہونے کے دعوے کرتے ہیں، مگر اپنے بچوں کو زندگی کی حقیقتوں سے روشناس نہیں کراتے۔ نتیجتا، جب وہ جوان ہوتے ہیں تو وہ ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جنہیں ہمارا دل و دماغ قبول نہیں کر پاتا۔ آئے روز خودکشیوں، ذہنی دبا اور معاشرتی بگاڑ کی خبریں ہمیں جھنجوڑ رہی ہیں۔ کیا ہم اب بھی آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں گے؟
میرے تمام بھائیوں، بہنوں اور بزرگوں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ ان سے بات کریں، ان کی پریشانیوں کو سمجھیں، انہیں اچھے اور برے کی تمیز سکھائیں۔ ان کے ساتھ دوستانہ مگر ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں۔ اپنی بیوی، شوہر، والدین اور بچوں سے روزانہ ان کے حالات پوچھیں۔ اگر ہم نے ابھی توجہ نہ دی تو یہی نوجوان نسل معاشرے کی تباہی کا سبب بن جائے گی۔
آئیے، اپنے گھر کو محفوظ بنائیں۔ اپنوں کی فکر کریں، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔

تحریر: ناصر اقبال کریمی

Leave feedback about this

  • Quality
  • Price
  • Service

PROS

+
Add Field

CONS

+
Add Field
Choose Image